حدیث میں لفظ اثرۃ آیا ہے ، جس کے معنی یہ ہیں کہ دنیاوی حقوق ومنافع میں صاحب حق پر دوسرے کو ترجیح دی جائے ، اور وہ امور جنھیں حضرات صحابہ نہیں جانتے پہچانتے تھے ، وہ ظاہر ہے کہ برے اور غلط امور ہی ہیں ۔
اس حدیث کا تعلق حکمرانوں سے ہے ، حکومت کی غلط اندیشی اور غلط روی یہ ہوگی ، کہ جو لوگ کسی فائدے یا کسی حق کے مستحق ہوں گے ، وہ تو نظر انداز کردئے جائیں گے ، اور نااہل لوگ بغیر کسی استحقاق کے وہ حقوق پاجائیں گے ، اور غلط روی کا چلن ہوگا ۔ ایسے وقت رعایا کو کیا کرنا چاہئے؟
طبرانی کی روایت میں ہے کہ ایک موقع پر صحابہ کرام نے عرض کیا ، جب ہم پر جو حکام ہوں ، وہ اپناتو حق ہم سے وصول کرلیں ، اور ہمارا جو حق ہے اسے نہ دیں ، تو کیا ہم ان سے لڑجائیں ۔ فرمایا نہیں ! ان پر جو ذمہ داری ہے ، اس کے جواب دہ تووہ ہیں ، اور تم پر جو ذمہ داری ہے ، اس کے جواب دہ تم ہو۔(فتح الباری: کتاب الفتن)
صاحب فتح الباری نے ایک روایت نقل کی ہے کہ رسول اﷲ ا نے فرمایا کہ میرے پاس جبرئیل آئے اور کہا ، آپ کی امت آپ کے بعد فتنے میں پڑے گی ، میں نے کہا وہ کہاں سے ؟ بولے کہ اپنے حکام اور علماء کی جانب سے ، حکام ان کا حق انھیں نہیں دیں گے ، پس وہ اپنے حقوق کا مطالبہ کریں گے ، اور فتنے میں پڑیں گے ، اور علماء ان حکام کی پیروی اور کاسہ لیسی کریں گے، تو فتنے میں پڑیں گے ، میں نے پوچھا تب بچنے ولا کیسے بچے ؟ کہا ، رک جانے اور صبر کرنے سے ، اگر وہ حکام دیں تو لے لے ، اور اگر نہ دیں تو چھوڑ دے۔ (حوالہ سابق)
اس حدیث سے حقوق طلبی ، احتجاج اور مظاہروں کی شرعی حیثیت معلوم ہوتی ہے ! واقعہ یہ ہے کہ حکومتوں سے ٹکرانے کا یہ صحیح راستہ نہیں ہے ، اس کا شرعی طریقہ وہی ہے ، جوحضرت عبد اﷲ بن مسعود ص کی روایت میں ذکر کیا گیا ہے ، یعنی ہر شخص اپنی ذمہ داری پہچانے اور جو حق اس کے اوپر دوسروں کاہے ، اور اس میں حکومت بھی داخل ہے ، یعنی