اور ہمہ جہت محیط ہے، اور کہاں یہ بے دلی کہ قریب جانے کی بھی ہمت نہیں ہوتی۔
اور معاشرات یعنی خاندانی اور گھریلو مسائل میں بھی یہی حال ہے ، پیدائش سے لے کر موت تک جتنے مسائل ہیں ، شادی بیاہ سے تقسیم وراثت تک ، ہرجگہ شریعت وسنت سے گریز وانحراف عام ہے، جس طرح نکاح کے سلسلے میں بے سروپا واہیات وخرافات رسوم اور بیجا اسراف کا چلن ہے ، اس سے زیادہ وراثت کے معاملے میں شریعت کی حدودپامال کی جاتی ہیں ، مشترک خاندان جس میں مال کی ملکیت ایک ہاتھ میں مرتکز ہوتی ہے ، زندگی میں بھی اور خاندان کے کسی ایک ممبر کے مرنے کے بعدبھی جس طرح مال میں خلاف شرع بے انصافی کارواج ہے ، پوچھئے مت الامان والحفیظ ۔ کیا صرف زبانی نعرہ کہ شریعت زندگی کے تمام مسائل کی کفیل ہے ،کیا اس نعرہ اور اس طرز عمل میں کوئی مناسبت ہے؟
سیاسیات کا مسئلہ تو اور ناگفتہ بہ ہے، میں اس وقت ان مسلمانوں کی بات نہیں کرتا ، جو خود تخت حکومت پر براجمان ہیں ، اور کبھی شریعت کانام لے کر اور کبھی اس کا نام لئے بغیر شرعی احکام کو پس پشت ڈالتے رہتے ہیں ، میرے مخاطب اس وقت ملک ہندوستان کے مسلمان قائدین ، لیڈر اور وہ علماء ہیں ، جو میدان سیاست میں شہ سواری کررہے ہیں ، اور پوری ملت کی قیادت وزعامت کے دعویدار ہیں ، ہمارے ملک میں حکومت نہ مسلمانوں کی ہے، نہ اسلام کی ! قانونی اور دستوری اعتبار سے سیکولر حکومت ہے ، یعنی کسی مذہب کی جانب داری نہیں ہے اور جمہوریت کے اصول پر کاربند ہے ، حکومت کے لئے ذمہ دار افراد کے انتخاب میں تمام شہریوں کا حصہ ہے ۔ دستوری طور پر تو یہی ہے لیکن افراد واشخاص کے لحاظ سے یہ ایک غیرمسلم حکومت ہے ، کیونکہ وہی اکثریت میں ہیں ، مسلمان اقلیت میں ہیں ، اس لئے عملاً یہ محکوم ہیں ،اس حکومت میں پارٹیوں اور افراد کے میلان ورجحان کے لحاظ سے اقلیتوں کے لئے مسائل پیدا ہوتے رہتے ہیں ، جمہوری طرز حکومت میں یہ مسائل کیسے حل ہوں ؟ خاص طور سے ہندوستان جن حالات کا شکار ہے ، ان کی جڑیں بہت گہری اور پھیلی ہوئی ہیں ۔ انگریزوں کے زمانے تک ہندوستان ایک ملک تھا ، انگریزوں نے اپنے دور میں