خصوصیت کے ساتھ ہندو مسلم فرقہ واریت پھیلائی ، آپس میں نفرت کا بیج بویا ، جب فرقہ واریت خوب گرم ہوگئی ، اور لوہا تیار ہوگیا تو اس ملک کے دو ٹکڑے کردئے ، بلکہ تین! پاکستان کے نام پر دو حصۂ زمین ، اور دونوں کے درمیان ایک وسیع وعریض ملک ہندوستان!
پھر دونوں میں اتنی نفرت بھردی کہ ساٹھ سال گزرنے کے بعد بھی دوستی اور باہمی اعتماد کی کوئی کرن نہیں پھوٹی ، اور یہ منافرت مذہبی بنیاد پر پیدا کی گئی ۔ ہندوستان کا ہندو پاکستان کے مسلمانوں کا دشمن ، اور پاکستان کا مسلمان ہندوستان کے ہندوؤں کا دشمن ! اب کشمکش بلکہ مصیبت میں ہندوستان کے مسلمان ہیں ، یہ مذہباً مسلمان ہیں ، اس لئے ان کو دنیا جہاں کے مسلمان سے لگاؤہے ، اور وطناً ہندوستانی ہیں ، اس لئے اپنے وطن سے انھیں محبت ہے ، پاکستانی مسلمان ان سے بدک رہا ہے ، کیونکہ یہ ہندوستانی ہیں ، اور ہندوستان کا ہندو انھیں شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے ، کیونکہ یہ مسلمان ہیں ۔ پاکستان میں کچھ ہوتا ہے تو یہ موردِ الزام ٹھہرائے جاتے ہیں ، اس کشمکش کا خمیازہ ہندوستانی مسلمانوں کو فرقہ وارانہ فسادات، مسلم نوجوانوں کے قتل ناحق اور گرفتاریٔ بے جا نیز بے تکے مقدمات میں ابتلاء اور جیل کی کال کوٹھریوں کی شکل میں بھگتنا پڑرہا ہے۔
اس درد کا درماں کیا ہے؟ اور اس مرض کی دوا کیا ہونی چاہئے؟ جمہوری طرز حکومت میں لوگ کہتے ہیں کہ اس طرح کی صورت حال سے نمٹنے کے لئے احتجاج اورمظاہروں کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے ، چنانچہ مسائل صرف مسلمانوں کے ساتھ نہیں ہیں ،مختلف سیاسی پارٹیوں کے بھی اپنے اپنے مسائل ومفادات ہیں ، اکثریت کے بھی کچھ مسائل ہیں ، ہندوستان کی دوسری اقلیتوں کے ساتھ بھی پیچیدگیاں ہیں ، اور اس جمہوری طرز کے ہنگاموں سے ہمارا ملک بیشتر اوقات بلبلاتا رہتا ہے۔
کیا ان مسائل میں اسلام کی کوئی تعلیم نہیں ، ہمارے بیشتر قائدین نے وہ طرز عمل اختیار کیا ہے ، جیسے ہمارے دین کی تعلیمات نے اس صورت حال سے کوئی تعرض کیا ہی نہیں ہے ،جوکچھ ہے وہ بس دنیاوی طریقۂ جمہوریت ہے ، حالانکہ احتجاج اور مظاہروں کی سیاست