کرتے ہیں ،مثلاً دو شخصوں میں اختلاف ہے بلکہ عداوت ہے ، اور محض نفسانی اغراض کی بنیاد پر ہے ، مگر وہ دونوں چاہتے ہیں کہ اس عداوت وعناد کو پبلک کے سامنے خوبصورت اور ضروری بناکر پیش کریں ، تو اس کی کوئی شرعی ، دینی اور اصولی بنیاد اختراع کرتے ہیں ، اور دین ومذہب کی راہ سے اپنے گرد مجمع اکٹھا کرتے ہیں ۔
مالیات کا حال یہ ہے کہ عموماً آدمی مسلمان ہو یا غیر مسلم !… اور غیر مسلم یہاں زیر بحث نہیں ہے … مال ودولت کی جوع البقر میں مبتلا ہے ، مال ہی مقصود بنا ہوا ہے ، آدمی کی نقل وحرکت مال ہی کے محور پر ہوتی ہے ، مال ہی آدمی کے ناپنے کا پیمانہ ہے ، نہ دین نہ عقل ، نہ خدمت نہ انسانیت! مالدار ہے تو وہ عقل مند ہے ، خادم قوم وملت ہے ، بڑا صاحب اخلاق ومروت ہے ، اور اگر چند مذہبی رسوم کو بھی کبھی کبھی بجالاتا ہے، تو بڑا مذہبی بھی ہے ، اور اگر مالدار نہیں ہے تو سب کچھ ہوکر بھی کچھ نہیں ہے ، بیوقوف ہے احمق ہے۔
جب مال کی یہ حیثیت قرار پاگئی ، تو اس کی آمد ہو، یا اس کا خرچ ، سب کچھ اسی جوع البقر (بے تحاشا حرص مال ) کے تحت ہوگا ، کیونکر شریعت سے کچھ پوچھنے جائیں ،وہ تو حرص وہوس سے بالاتر ہوکر محض اﷲ کی رضا کے تحت نفی واثبات کرے گی ، پھر تو سینۂ آزرو پر بھاری پتھر رکھنا پڑے گا جو کب گواراہوگا ؟ پس شریعت کی چھٹی کردی ، اور جس راستے سے چاہا کمایا، اور جس راستے میں چاہا ، بہایا، اس سے اپنی کوئی غرض نفسانی پوری ہونی چاہئے ، ہاں جب مال میں کوئی بحرانی افتاد پڑتی ہے ، اور نقصان کی کوئی تلافی دکھائی نہیں دیتی تو اس وقت اﷲ والے یاد آتے ہیں ، اﷲ کی شریعت پھربھی نہیں یاد آتی ، صرف اﷲ والے یاد آتے ہیں ، کہ ان سے دعائیں کرائیں ، ان سے کوئی وظیفہ حاصل کریں ، یہ بھی نہ ہوسکے تو ان سے کوئی تعویذ لیں تاکہ اﷲ تعالیٰ یہ بحران دور کردیں ، یہ خیال نہیں ہوگا کہ شریعت کا مسئلہ دریافت کرکے اپنے مالی معاملات اور آمد وصرف کا طریقہ درست کرلیں ، بس یہ ہے کہ ہم جس حال میں اور جس طریق پر ہیں ، رہنے دو، اور دعا کرکے یہ مصیبت ٹلادو، پانی میں جو نجاست ہے ، وہ اسی میں رہنے دو، اور پھونک کر پانی پاک کردو۔ کہاں وہ دعویٰ کہ شریعتِ اسلامی کی تعلیم ہمہ گیر