خیال ہوتا ہے ، اس سے رہنمائی حاصل کی جاتی ہے ، اور اس پر عمل بھی کیا جاتا ہے ، لیکن اس شعبہ کے علاوہ دوسرے شعبوں کا حال یہ ہے کہ ان میں دنیاوی اغراض ومقاصد اور نفسانی خواہشات وجذبات کا چونکہ براہ راست شمول ہوتا ہے ، اس لئے شریعت سے یا تو کچھ پوچھا ہی نہیں جاتا کہ ، کہیں اس کی رہنمائی ہمارے اغراض ومقاصد کے خلاف نہ ہوجائے، یا اگر کچھ پوچھنا ہی پڑتا ہے تو اس احتیاط وتحفظ کے ساتھ کہ اس کاجواب اپنے مزاج اور نفس وطبیعت کے خلاف نہ ہو، اخلاقیات ومالیات کا شعبہ بطور خاص اس سے متاثر ہے ، اسی کے قدم بقدم معاشرات کا شعبہ ہے ، لیکن اس معاملہ میں سب سے زیادہ جو شعبہ نظر انداز ہوا ہے ، ایسا جیسے اسلام اور شریعت سے اس کا کوئی تعلق ہی نہ ہو ، وہ سیاسیات کا شعبہ ہے ، خواہ وہ مسلمانوں کی حکومت وسیاست ہو، یا غیر مسلموں کے درمیان ، ان کی حکومت میں مسلمانوں کے سیاسی مسائل ہوں ، یا تو پوچھا ہی نہیں جاتا کہ جو سیاسی اور ملکی مسائل درپیش ہیں ، ان میں شریعت اور سنت کی تعلیم کیا ہے؟ یا طرز وانداز سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مذہب کا تعلق عبادات اور نکاح وطلاق وغیرہ سے ہوتو ہو،سیاست میں مذہب خاموش ہے ، جو سیاست رائج الوقت ہو ، پس اسی کے تانے بانے میں الجھے رہو ، یہاں شریعت کہاں ؟ اور سنت کیا چیز ہے؟
اخلاقیات کا حال یہ ہے کہ عملاً اسے دنیوی اغراض سے جوڑ دیا گیا ہے ، خواہ ان اغراض کا تعلق مال سے ہو ، یا عزت وجاہ سے، یا خاندان وقبیلہ سے ، یا پارٹی اور گروہ بندی سے ،ا خلاق کا شعبہ کسی نہ کسی غرض سے وابستہ ہے ، اس لئے اخلاقی اقدار کے اصول یکساں نہیں ہیں ، ایک چیز جو میری غرض کے خلاف ہے وہ خواہ معاشرہ اور ماحول کے لئے جتنی بھی بہتر ہو ، ناپسند اور غلط ہے ، اور میری پسند کی جو چیز ہے خواہ وہ دوسروں کے لئے کتنی ہی مضر ہو ،وہ بہر حال بہتر ہے ، جب اخلاقیات کی بنیاد یہ چیزیں قرار پاجائیں گی ، تو ان کے بروئے کار لانے کیلئے سنت وشریعت کی کیاضرورت ہے ؟ لیکن شریعت کا دبدبہ بہرحال قلوب پر ہے ، تو اصحاب غرض کھینچ تان کر اغراضی اخلاق پر سنت وشریعت کا رنگ چڑھانے کی کوشش