ہوں یا عقلی ، ان سے مجھے وجودِ باری ، نبوت اور معاد پر ایمان راسخ حاصل ہوچکا تھا ، لیکن یہ بھی کسی دلیل محض سے نہیں بلکہ ان اسباب وقرائن اور تجربوں کی بنا پر جن کی تفصیل مشکل ہے ، مجھ پر یہ اچھی طرح واضح ہوچکا تھا کہ سعادتِ اُخروی کی صورت صرف یہ ہے کہ تقویٰ اختیار کیاجائے اور نفس کو اس کی خواہشات سے روکاجائے ، اور اس کی تدبیر یہ ہے کہ دارِ فانی سے بے رغبتی ، آخرت کی طرف میلان وکشش اور پوری یکسوئی کے ساتھ توجہ الی اﷲ کے ذریعہ قلب کا علاقہ دنیا سے ٹوٹ جائے ، لیکن یہ جاہ ومال سے اعراض اور موانع وعلائق سے فرارکے بغیر ممکن نہیں ۔ میں نے اپنے حالات پر غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ میں سرتاپا دُنیوی علائق میں غرق ہوں ۔ میرا سب سے افضل عمل تدریس وتعلیم کا معلوم ہوتا تھا ، لیکن ٹٹولنے سے معلوم ہوا کہ میری تمام تر توجہ ان علوم کی طرف ہے جو نہ اہم ہیں اور نہ آخرت کے سلسلے میں کچھ فائدہ پہونچانے والے ہیں ۔ میں نے اپنی تدریس کی نیت کو دیکھا تو وہ بھی خالص لوجہ اﷲ نہ تھی ، بلکہ اس کا باعث ومحرک بھی محض طلب جاہ وحصول شہرت تھا ، تب مجھے یقین ہوگیا کہ میں ہلاکت کے غار کے کنارے کھڑاہوں ، اگر میں نے اصلاح حال کے لئے کوشش نہ کی تو میرے لئے سخت خطرہ ہے۔ ‘‘
اس کے بعدامام غزالیؒ اپنی اندرونی کش مکش ، ایمان ونفس کی آویزش ، پھر اس کی وجہ سے اپنے مبتلائے امراض ہونے کا ذکر کرتے ہیں ۔ اس کے بعد بغداد سے نکلنے، تدریس کو چھوڑنے ، لوگوں کے افسوس کنے کا تفصیلی تذکرہ کرتے ہوئے اپنے دس سالہ مجاہدات کا اجمالاً ذکرکرنے کے بعد انھوں نے بطور خلاصہ کے تحریر فرمایا ہے کہ :
’’ان تنہائیوں میں مجھے جو کچھ انکشافات ہوئے ، اور جو کچھ مجھے حاصل ہوا، اس کی تفصیل اور استقصاء تو ممکن نہیں ، لیکن ناظرین کے نفع کے لئے اتنا ضرور کہوں گا کہ مجھے یقینی طور پر معلوم ہوگیا کہ صوفیہ ہی اﷲ کے راستے کے سالک ہیں ،ان کی سیرت بہترین سیرت ، ان کا طریق سب سے مستقیم اور ان کے اخلاق سب سے زیادہ