ہے کہ گاڑیوں کا کرایہ بھی بہت بڑھ جاتا ہے، حجاج چیں بجبیں ہوتے ہیں ، بعض کہنے لگ جاتے ہیں کہ یہ لوگ حاجیوں کو لوٹتے ہیں ، حالانکہ ایسا نہیں ہے ، ان کو بھی مجبوریاں ہوتی ہیں ، پھر آپ جو کچھ خرچ کردیں گے، اسی حساب سے ثواب بڑھ جائے گا ،تو ناروا گھبراہٹ ظاہر کرکے ، بیجا تبصرہ کرکے اپنا ثواب کیوں کھوتے ہیں ۔
بعض بزرگوں نے اپنے متوسلین کو ہدایت کررکھی ہے کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں مول بھاؤ نہ کریں ، ہمارے ذمے حق ہے کہ ہم اﷲ ورسول کے ان پڑوسیوں کی مدد کریں ، انھیں اگر ہم صدقہ نہیں دے سکتے ، تو خرید وفروخت اور گاڑیوں کے کرائے میں تو وسعت سے کام لیں ، ان کی مدد ہوگی اور ہمیں ثواب حاصل ہوگا۔
کبھی کبھی معلمین اور حج کمیٹی پر گرجتے برستے لوگ کہہ جاتے ہیں کہ اتنا اتنا پیسہ دیا ہے ، یہ مناسب نہیں ہے، آپ نے پیسہ دیا ہے ، آپ پر واجب تھا کہ دیتے ، ان چند پیسوں میں دنیا وآخرت کی کتنی بڑی دولت حاصل ہوگئی ، کہ آپ اﷲ رب العزت کے دربارِ خاص میں پہونچ گئے ، اگر تکلیف ہورہی ہے ، تو اس پر بھی اجر بڑھ رہا ہے، تو آپ کا تو نفع ہی نفع ہے ، پھر ان طعنوں اور کوسنوں سے آپ نے کون سا ثواب کمایا؟
کبھی کبھی نیچے درجے کے بعض خدمت گار ، مثلاً بوجھ ڈھونے والے مزدور ، جو واقعی بہت محنت کرتے ہیں ، حاجیوں کے بڑے بڑے وزنی سامان ادھر سے ادھر منتقل کرتے ہیں ، کبھی وہ کچھ عطیے کے منتظر ہوتے ہیں ، وہ مزدوری نہیں مانگتے ، کیونکہ انھیں اجرت تو ان کے ذمہ داروں کی طرف سے ملتی ہے ، حاجیوں کو راحت پہونچائی ہے تو بطور خوشی کے کچھ انعام، عطیہ ، بخشش چاہتے ہیں ، بعض لوگ انھیں سختی سے جھڑک دیتے ہیں ، حالانکہ اگر وہ انھیں ہلکے سے ہلکا بھی انعام دیدیتے ہیں تو وہ بہت خوش ہوجاتے ہیں ، اور کام میں مزید چستی پیدا ہوتی ہے ، اور حاجی نے کچھ خوش ہوکر دے دیا، تو اسے ثوب ہوتا ہے ، آپ پڑھ چکے ہیں کہ حج مبرور ہونے کا ایک سبب کھانا کھلانا بھی ہے ، حج میں اس کا اہتمام کرنا چاہئے کہ رفقاء ہوں یا خدام انھیں کھانا کھلاتے رہیں ، خواہ کھانا دے کر، خواہ رقم دے کر، اس سے