پھر حکایت وشکایت کا دفتر کھولنا ، کسی کو برا بھلا کہنا ، یہ سب بے صبری ہے ، چند دن کا سفر ہے، چند دن کی تکلیف سہہ لینا کیا مشکل ہے ، لوگ اپنی بلڈنگ کی ، اپنے معلم کی ، حج کمیٹی کی، حج خدام کی بہت شکایتیں کرتے پھرتے ہیں ، یہ بے صبری ہے ، جو اﷲ کو پسند نہیں ہے، یہ نہیں دیکھتے کہ کیسی مقدس جگہ اﷲ نے پہونچادیا ہے، بہت بڑے احسان کا تصور ہوتا ہے ، تو چھوٹی چھوٹی ناگواریاں فنا ہوجاتی ہیں ۔
صبر وتحمل یہ دوبنیادی اوصاف ایسے ہیں کہ حق تعالیٰ کی مدد بھی ان پر آتی ہے، اور مشکلیں بھی آسان ہوجاتی ہیں ، قرآن پاک اور حدیث میں صبرکے بہت فضائل ومحامد بیان کئے گئے ہیں : إِنَّمَا یُوَفَّی الْصَّابِرُوْنَ اَجْرَھُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ۔ (الزمر: ۱۰) صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر دیاجائے گا ۔ اور غصہ کے بارے میں اﷲ تعالیٰ نے اہل تقویٰ کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے : وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ ، (سورہ آل عمران)اہل تقویٰ کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ غصہ کو ضبط کرتے ہیں ۔
تیسری چیز جسے حاجی کو اہتمام کے ساتھ اختیار کرنا چاہئے ، وہ یہ ہے کہ جلد بازی کسی مرحلہ میں نہ کرے، عبادت میں جلد بازی کو رسول اﷲ ا نے منع فرمایا ہے،نماز شروع ہوچکی ہو، تو دوڑ کر اس میں شامل ہونے سے منع فرمایا ہے ، حج کے سفر میں بطور خاص اس کا اہتمام چاہئے کہ جلد بازی نہ ہو ، یہ طریقہ اﷲ کو پسند نہیں ہے، اس کے برخلاف اطمینان ووقار حق تعالیٰ کو پسند ہے۔
بخاری ومسلم میں حضرت ابوہریرہ ص سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ا نے ارشاد فرمایا : إذا اقیمت الصلوٰۃ فلا تاتوھا وانتم تسعون واتوھا وانتم تمشون و علیکم السکینۃ فماأدرکتم فصلوا وما فاتکم فأتموا۔
جب نماز کی جماعت کھڑی ہوچکی، تو تم دوڑ کر اس میں مت شامل ہو، بلکہ سکون کے ساتھ چل کر شامل ہو ، پھر جو مل جائے پڑھ لو، اور جو فوت ہوجائے اس کو بعد میں پورا کرلو۔
حجۃ الوداع کے موقع پر عرفات سے کوچ کرتے ہوئے رسول اﷲ ا نے پیچھے