تصوف کے نام سے معروف ہے ۔ اب خواہ کوئی اس نام سے بھڑکے یااسے غیر اسلامی چیز قراردے ، مگر یہ حقیقت ہے کہ اس راہ کو اپنائے بغیر اخلاص اور احسان کے نام اور اس کی علمی تشریحات کی معرفت تو ہوسکتی ہے ، لیکن آدمی کا دل ودماغ اور اس کا ریشہ ریشہ اس کی حلاوت سے سرشار ہوجائے ، اس کاحصول مشائخ کی صحبت اور تصوف کی عملی مشق کے بغیر بہت دشوار ہے ۔ یہ ایک حقیقت ثابتہ ہے آدمی خواہ اس سے صرفِ نظر کرے ، مگر اس کے بغیر اسے اپنی زندگی میں خلاء ضرور محسوس ہوتا ہے ، بشرطیکہ حس ماؤف نہ ہوچکی ہو ۔ آج دنیا میں انسان اپنے کو بہت سی لایعنی مشغولیات میں مبتلا کرکے حقائق سے فرار اختیار کرتا ہے مگر مرض اور بڑھاپا تمام لایعنی مشغلوں کو چھڑادیتا ہے ۔ اس وقت بہت سے لوگوں کو اپنی کمی کا احساس ہونے لگتا ہے ، اور اصحاب توفیق اس پر پہلے ہی متنبہ ہوجاتے ہیں ۔ اس سلسلے میں مشہور ومعروف صاحب علم وتدریس حضرت امام غزالی علیہ الرحمہ کااعتراف اور ان کی آپ بیتی ملاحظہ کرلینی چاہئے ۔ یہ صرف انھیں کے دل کی آواز نہیں ہے ، بلکہ غور کریں گے تو بکثرت اصحاب علم وفضل کے دل کی گہرائیوں سے یہ صدا نکلتی ہوئی محسوس ہوگی ، یہ اور بات ہے کہ امام غزالی نے اس صدا پر لبیک کہی اور بہت سے حضرات اسے نظر انداز کردیتے ہیں ۔ امام غزالی کی تحریر کایہ اقتباس ہم حضرت مولانا سیّد ابوالحسن علی ندویؒ کی مایہ ناز کتاب ’’ تاریخ دعوت وعزیمت‘‘ حصہ اول سے نقل کرتے ہیں ۔ امام صاحب علوم وفنون کی کئی بے برگ وگیاہ وادیوں کا جائزہ لینے کے بعد لکھتے ہیں کہ:
’’ اب صرف تصوف باقی رہ گیا ہے ، میں ہمہ تن تصوف کی طرف متوجہ ہوا، تصوف علمی بھی ہے اور عملی بھی ۔ میرے لئے علم کا معاملہ آسان تھا ، میں نے ابوطالب مکی کی ’’قوت القلوب ‘‘ اور حارث محاسبی کی تصنیفات ،اور حضرت جنید وشبلی وبایزید بسطامی وغیرہ کے ملفوظات پڑھے اور علم کے راستے سے جو کچھ حاصل کیا جاتا تھا ، وہ میں نے حاصل کرلیا ، لیکن مجھے معلوم ہواکہ اصلی حقائق تک تعلیم کے ذریعہ سے نہیں ، بلکہ ذوق وحال اور حالات کی تبدیلی سے پہونچا جاسکتا ہے ، جو علوم میرا سرمایہ تھے خواہ شرعی