کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے ۔ ان میں سے ہر شخصیت ایسی ہی تھی کہ آج ان کا بدل تلاش کرنے سے نہیں ملتا ۔ یہاں ان سطروں میں ہم ان بزرگانِ رفتہ کا ماتم نہیں کرنا چاہتے ، بلکہ اس پر غور کرنا چاہتے ہیں ، اور اپنے اخوان واحباب کو دعوتِ فکر دینا چاہتے ہیں کہ گزر جانے والی نسل میں وہ کیا خاص بات تھی جس کی وجہ سے وہ ساری انسانیت کے لئے پناہ گاہ بن گئے تھے ، اور ان کے سائے میں ہر آنے والا سکون اور خنکی محسوس کرتا تھا ، اور موجودہ نسل سے وہ کیا چیز گم گئی ہے کہ اس کے پاس سوزش ، تکلیف ، پیاس اور بے اطمینانی کے سوا اور کچھ نہیں ملتا۔
لوگوں کے رُجحانات بدلے ہوئے ہیں ، ہوا کا رُخ کچھ اور ہے ، اس سے ہٹ کر گفتگو کرنا اپنے آپ کو موردِ طعن بناناہے ، لیکن جو بات کہنے کی ہے اسے ’’حلقۂ یاراں ‘‘ میں لانا ضروری ہے ، شایددلوں کی آنکھ کھلے ، شاید کسی کو نفع ہو۔
جب ہم ان بزرگوں کی زندگی اور ان کی سیرت وشمائل پر غور کرتے ہیں تو یہ حقیقت نمایاں طور پر نظر آتی ہے کہ جن کمالات کی وجہ سے انھیں دنیا نے اپنے دل میں جگہ دی ان کا اصل منبع اور سرچشمہ وہی چیز ہے جسے آج کل اسلام میں شجر ممنوعہ قرار دیا جارہا ہے ، وہ کیا ہے؟ وہ تصوف ہے ۔ یہ سارے حضراتِ اکابر تصوف کے ذوق آشنا ہی نہیں عملاً اس کوچہ کے رہ نورد اور اس طریق کے سالک تھے ، اسی تصوف نے ان کی زندگیوں میں اس درجہ حلاوت ، کیف اور چاشنی بھردی تھی کہ جو بھی ان کی صحبت میں پہونچ گیا وہ ان میں جذب ہوکر رہ گیا۔
اﷲ تعالیٰ کاارشاد ہے : وَمَا أُمِرُوْا إِلَّا لِیَعْبُدُوْااﷲَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الْدِّیْنَ۔ ان کو جو حکم ہے وہ یہی ہے کہ اﷲ کی عبادت اخلاص کے ساتھ کریں ۔ اور اسی اخلاص میں آدمی ترقی کرتا ہے تو اسے مرتبۂ احسان حاصل ہوتا ہے ، جو عبادت اور دین کا اصل جوہر ہے ، اس کو حاصل ہونے کے بعد آدمی کا رُواں رُواں صدا دینے لگتا ہے کہ إِنَّ صَلَا تِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ ﷲِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ بے شک میری نماز، میری قربانی بلکہ میری زندگی اور موت محض اﷲ کے لئے ہے جو سارے عالم کا پروردگار ہے۔
اسی اخلاص اوراحسان کو حاصل کرنے کا طریقہ اور اس تک پہونچنے کا راستہ