اور اس کے مشغلے میں اس لئے لگاہوا ہے کہ اس سے اسلام کو نئی تازگی اور زندگی ملے ، تو جنت میں اس کے اور انبیاء کے درجات میں صرف ایک درجے کا فرق ہوگا۔
یہ آدمی کی آخری خوش نصیبی ہے کہ انبیاء کی قدوسی جماعت کے بعد اسی کا شمار ہو، یہ علم دین کی فضیلت کی معراج اور اس کے مشغلے کا نقطۂ عروج ہے۔
موضوع بہت طویل ہے ، قرآن کریم نے ایجاز وبلاغت کے ساتھ اسے چند کلمات وحروف میں پورے طور پر ادا کردیا ہے۔
قرآن کریم کی اس ہدایت وتنبیہ کے بعد کسی مسلمان کے دل میں یہ وسوسہ باقی نہیں رہنا چاہئے کہ علم دین کی تحصیل کے بعد ، اس عالم کے لئے اس سے ہٹ کر کوئی اور وجہ فضیلت ہوسکتی ہے ! اگر کوئی شخص ایسا سوچتا یا سمجھتا ہے ، تو اسے اپنے ایمان کی خبر لینی چاہئے، اس کے دل میں روگ ہے ، اس روگ کا علاج کرنا چاہئے۔
اس تمہید کے بعد سنئے ! کچھ دنوں سے اخبارات میں ، دنیاداروں کی مجلسوں میں ، نیم دینداروں کی محفلوں میں خوشی کا شادیانہ بجایا جارہا ہے کہ فلاں مولوی قاسمی نے آئی۔اے ۔ایس میں کامیابی حاصل کی ہے، اب وہ کلکٹر ہوسکتا ہے، اور اﷲ جانے کیا ہوسکتا ہے ، اس کے لئے استقبال کی مجلسیں سجتی ہیں ، اور یہ مجلسیں سجانے والے محض دنیادار ہوں تو کچھ قابل حیرت بات نہیں ہے ، افسوس اس کا ہے کہ بعض وہ لوگ اور وہ جماعتیں ، جو دین کی نمائندگی کے دعووں میں مبتلا ہیں ، وہ بھی یہ محفلیں سجاتی ہیں ، جیسے اس قاسمی نے کوئی میدانِ کارزار فتح کرلیا ہو، کوئی بڑا کارنامہ انجام دے لیا ہو۔ انگریزی کے چند حروف، اور حساب کی چند گنتیاں یاد کرکے لوگ اس سے بڑے بڑے عہدے فتح کررہے ہیں ، ایک قاسمی آئی۔اے۔ایس پاس کرکے ،گرایااٹھا؟ مرا یا جیا؟معزز ہوا یا ذلیل ہوا؟
اسے کیا ہونا چاہئے تھا ، اور کیا ہوگیا ۔ قرآن کریم کی مذکورہ بالا دونوں آیتوں کے آئینے میں اس کو دیکھئے، خوش نماہو؟ یا بدنما! آپ کیا سمجھتے ہیں کہ دار العلوم دیوبند اور اس طرز فکر کے مدارس میں قوم کے بہترین ذہن ودماغ نہیں رہتے ؟ رہتے ہیں ، اور کالجوں اور