اب وہ عزت کی بلندی سے گرااور ذلت کی پستی میں جاپڑا ۔ اس حد تک کہ وہ اس ذلیل کتے کی طرح ہوگیا ، جو ہر حال میں زبان باہر نکال کر ہانپتا رہتا ہے، شیطان نے اس کا پیچھا کیا اور گمراہی کے گہرے غاروں میں اسے ڈھکیل دیا۔
علم دین ، آیاتِ الٰہی ، شعائر اﷲ کو حاصل کرنے کے بعد اگر کوئی ان سے منہ موڑ کر زمینی مال ودولت اور عزت وجاہ کے درپے ہوا، وہ خدا کی پھٹکار میں گرفتار ہوا،اور شیطان کا کھلونا بنا۔ یہی وجہ ہے کہ اکابر سلف اور بزرگانِ امت علم دین حاصل کرنے کے بعد کسی اور علم وفن میں جانے کو سخت ناپسند کرتے ہیں ۔
باندہ کے مسلّم بزرگ حضرت مولانا قاری سیّد صدیق احمد صاحب نور اﷲ مرقدہٗ فرمارہے تھے کہ ایک شخص دس بارہ سال مدرسوں میں ، خالص دینی ماحول میں ، دینی علوم کو حاصل کرنے کے لئے وقت لگاتا ہے ، پھر جب وہ پڑھ کر فارغ ہوجاتا ہے تو وہ دوسرے دنیاوی مشغلوں میں پڑجاتا ہے، تو ضرور اس نے کوئی ایسی غلطی اور دناء ت کی ہوگی ، جس کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ نے اس کو اس معزز مقام سے نکال باہر کیا ۔
ہم نے اپنی طالب علمی کے زمانے میں ایک بزرگ عالم کو دیکھا کہ ایک شخص علم دین کی تحصیل کے بعد علم طب کے مشغلے میں جانا چاہتاتھا ، انھوں نے فرمایا کہ گھوڑے پر سوار ہونے کے بعد گدھے کی سواری کیسی معلوم ہوتی ہے ؟ وہ حضرات جنھوں نے علم دین سے پیمانِ وفا باندھا ، اور پھر اسی میں اپنے کو فنا کردیا، دنیا نے ان کو جس قدر عظمت کی نگاہ سے دیکھا ، وہ تاریخ اور تذکروں کے روشن صفحات پر تو مسلسل چمک دمک رہے رہے ہی ہیں ، اس سے بڑھ کر حضور عالی ا کا فرمان واجب الاذعان ملاحظہ ہو:
قال رسول اﷲ ﷺ من جاء ہ الموت وھو یطلب العلم لیحیی بہ الاسلام فبینہ وبین النبیین درجۃ واحدۃ فی الجنۃ ( رواہ الدارمی ) مشکوٰۃ شریف : کتاب العلم ، الفصل الثالث )
رسول اﷲ ا نے فرمایا کہ جس کی موت اس حال میں آئے آئی کہ وہ علم کی طلب