وَاتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَأَ الَّذِیْ آتَیْنَاہُ آیَاتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْھَا فَاَتْبَعَہُ الشَّیْطٰنُ فَکَانَ مِنَ الْغَاوِیْنَ ، وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاہُ بِھَا وَلٰٰکِنَّہٗ أخْلَدَ إلَی الأْرْضِ وَاتَّبَعَ ھَوَاہُ فَمَثَلُہٗ کَمَثَلِ الْکَلْبِ إنْ تَحْمِلْ عَلَیْہِ یَلْھَثْ أوْ تَتْرُکْہُ یَلْھَثْ ذٰلِکَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیَاتِنَا فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ ۔(سورۃ الاعراف ۱۷۵؍۱۷۶)
اور ( اے پیغمبر ) ان لوگوں کو اس آدمی کا حال ( کلام الٰہی میں ) میں پڑھ کر سناؤ جسے ہم نے اپنی نشانیاں دی تھیں ( یعنی دلائل حق کی سمجھ دی تھی ) لیکن پھر ایسا ہوا کہ اس نے )دانش وفہم کا ) وہ جامہ اتار دیا ، پس شیطان اس کے پیچھے لگا، نتیجہ یہ نکلا کہ گم راہوں میں ہوگیا۔
اور اگر ہم چاہتے تو ان نشانیوں کے ذریعے اس کا مرتبہ بلند کرتے ( یعنی دلائل حق کا جو علم ہم نے دیا تھا ، وہ ایسا تھا کہ اگر وہ اس پر قائم رہتا اور ہماری مشیت ہوتی تو بڑا درجہ پاتا ) مگر وہ پستی کی طرف جھکا اور ہوائے نفس کی پیروی کی تو اس کی مثال اس کتے کی سی ہے کہ مشقت میں ڈالو تب بھی ہانپے اور زبان لٹکائے ، اور چھوڑدو جب بھی ایسا ہی کرے ، ایسی مثال ان لوگوں کی ہے جنھوں نے ہماری نشانیاں جھٹلائیں ، تو (اے پیغمبر ) یہ حکایتیں لوگوں کو سناؤ تاکہ ان میں غور وفکر کریں ۔
غور وفکر کی دعوت قرآن کریم دے رہا ہے ، اﷲ تعالیٰ دے رہے ہیں ۔ اربابِ عقل پر فرض ہے کہ ان دونوں آیتوں کے مضامین سے سرسری طور پر نہ گزریں ۔ اﷲ نے ایک صاحب عقل وشعور اور ذہین وذکی شخص کو اپنی آیتوں اور اپنی خاص خاص نشانیوں کا علم دیا تھا ، یہ شخص اگر ان آیات کا اور ان کے علم کا حق ادا کرتا ، تو بارگاہِ ربوبیت کی جانب پرواز کرتا ، اور بلندیوں پر چڑھتا چلا جاتا، مگر اس نے اس علم کی قدر نہیں ، وہ علم جو بلندیوں کے لئے اور اعلیٰ مقامات کے لئے موضوع تھا ، اس ظالم نے اس کو اپنے اوپر سے اتارپھینکا اور پرِ پرواز کو کاٹ کر نیچے گرادیا ، اور اس کے نتیجے میں زمین کی طرف پستی میں جھک گیا ، اور گرتا چلا گیا ، دنیائے فانی کی طمع میں پڑگیا ، حطامِ دنیا کو منتہائے مقصود بنالیا، دنیا کے جاہ ومرتبہ اور مال ومنال کو مقصودِ زندگی قرار دے لیا ، پھر اس کا رُخ بارگاہِ الوہیت کے بلند مراتب سے پھر گیا ۔