آیتوں کی روشنی میں کریں ، ان کے مناسب احادیث بیان کریں ، آثار صحابہ کے ذریعے شرح کریں ، غرض وعظ ایسا ہوکہ ایمان میں اضافہ ہو، دنیا کی عظمت دل سے نکلے ، مسلمان دین وایمان پر جمیں ۔ ترغیب بھی دیں اور اعمال بد کے نتائج سے بھی ڈرائیں ، واہی تباہی قصے نہ سنائیں ، فحش اور بے حیائی کو ابھارنے والی باتوں سے احتراز کریں ۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ سامعین کے دل کو موہنے والی ہنسی مذاق والی باتوں سے قطعاً اجتناب کیا جائے ۔ بعض مقررین کا طرۂ امتیاز یہی بن جاتا ہے کہ وہ ہنسنے ہنسانے کی باتیں وعظ میں کرتے ہیں ، ایسے انداز اختیار کرتے ہیں کہ سامعین میں قہقہہ برپا ہوجاتا ہے ، یہ بات قطعاً نامناسب ہے ، جن دلوں کو اﷲ ورسول کے کلام سے متاثر ہونا تھا ، وہ قہقہوں کے سیلاب میں بہہ جاتے ہیں ۔ وہ جلسہ ہی کیا جس میں ایمان کی حرارت تیز ہونے کے بجائے ہنسی مذاق سے قلب ودماغ مردہ ہوجائے۔
حضرت ابوہریرہ ص رسول اکرم ا کاارشاد نقل کرتے ہیں کہ :
إن العبد لیقول الکلمۃ لایقولھا إلا لیضحک بہ الناس، یھوی بھا أبعد مابین السماء والارض وانہ لیزل عن لسانہ أشد مما یزل عن قدمیہ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان)
آدمی کوئی بات صرف لوگوں کو ہنسانے کے لئے بولتا ہے ، اس کی وجہ سے وہ اتنے نیچے گرجاتا ہے جو زمین وآسمان کے درمیانی فاصلے سے بھی زیادہ ہے، اور بلاشبہ آدمی زبان سے اتنا زیادہ پھسلتا ہے کہ قدم سے اتنا نہیں پھسلتا۔( مشکوٰۃ شریف ،کتاب الآداب، باب حفظ اللسان)
یہ حدیث ہر وقت پیش نظر رکھنی چاہئے ، ہنسنے ہنسانے کو مشغلہ بنانا خود گناہ ہے، اور اس سے سامعین کے قلوب برباد ہوتے ہیں ، جلسہ کا جو مقصد ہوتا ہے ، اور جس کاخاص اہتمام کرنا چاہئے ، وہ نہ صرف فوت ہوجاتا ہے بلکہ آدمی اﷲ کی ناراضگی کا شکار بن جاتا ہے۔
اسی طرح وعظ وتقریر میں گاکر اشعار پڑھنا، اور اسے محفل قوالی بنادینابھی ایک سنگین غلطی ہے ، ٹھوس مضامین ، سنجیدہ انداز میں بیان کرناچاہئے ، دوران وعظ مناسب شعر