مسائل اور حکمرانی وسیاست کے احکام ہیں کہ کیا واجب ہے ، کیا مستحب ہے ، کیا مباح ہے ، کیا حرام ہے، کیا مکروہ ہے وغیرہ، اس علم کا تعلق فقیہ سے ہے۔
علم مخاصمہ کا تعلق دنیاکے گمراہ فرقوں سے ہے ، ان کی غلطیوں کی نشاندہی اور سچی اور حق بات کا بیان ، اس علم کا تعلق ’’ متکلمین‘‘ سے ہے ۔ ان دونوں علوم کے بعد علم تذکیر ہے ، یعنی وعظ ونصیحت، پھر اس کی تین شاخیں ہیں ، ہر شاخ ایک مستقل علم ہے ، اول اﷲ تعالیٰ کے احسانات ، نعمتوں ، زمین وآسمان کے تکوینی انتظامات ومصالح اور حکمتوں کے ذریعے سے بندگان خدا کی تذکیر! دوسرے حق تعالیٰ کے تصرفات جو بندوں کے درمیان ان کے ایمان واطاعت یا کفر وسرکشی کے نتیجے میں واقع ہوئے ہیں ، ان کا بیان ، اور ان کے ذریعے نصیحت ویاددہانی! تیسرے موت اور موت کے بعد کے حالات کا بیان اور ان کے واسطے سے بندوں کی رہنمائی!
ان تینوں علوم کے بارے میں شاہ صاحب فرماتے ہیں :
’’ وحفظ تفاصیل ایں علوم والحاق احادیث وآثار مناسبہ آں ، وظیفۂ واعظ ومذکر است۔‘‘ان علوم کی تفصیلات کو یاد رکھنا، اور ان کے مناسب احادیث وآثار کو شامل کرنا واعظ ومذکِّر کا وظیفہ ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید میں جو علوم ومعارف صراحۃً بیان کئے گئے ہیں ، ان میں سے زیادہ تر کا تعلق واعظ ومذکِّرسے ہے ، پس واعظ اور خطیب کی ذمہ داری ہے کہ ان امور کو قرآن شریف ہی سے بیان کرے ، کیونکہ ان سب مضامین کا ذکر قرآن کریم میں ہے ، اور اﷲ تعالیٰ جس مضمون کو بیان کریں گے تو ظاہر ہے کہ اس سے زیادہ موثر اور عمدہ کس کا بیان ہوسکتا ہے ، ہاں اس کی اجازت ہے کہ وہ ان قرآنی مضامین کی وضاحت کیلئے بطور تشریح کے احادیث وآثار سے کام لے۔
مقصد یہ ہے کہ مقرر حضرات قرآنی مضامین توحید ، رسالت ، عقیدۂ آخرت ، اﷲ کے احسانات ، نیک وبد اعمال کے حق تعالیٰ کی طرف سے ثواب وعذاب کا تذکرہ قرآن کی