(۲) حضراتِ مقررین وواعظین، کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ان کا مقصود محفل پر اپنا رنگ جمانا اور لوگوں کو اپنی قیادت وسیادت کی طرف دعوت دینی مقصود نہیں ہے ، بندے سب بندے ہیں ، انھیں بندہ ہی بنارہنا زیب دیتا ہے ، یہاں توانبیاء تک کے بارے میں حکم ہے کہ :مَاکَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّؤْتِیَہُ اﷲُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ ثُمَّ یَقُوْلَ لِلنَّاسِ کُوْْنُوْ ا عِبَاداً لِیْ مِنْ دُوْنِ اﷲِ وَلٰٰکِنْ کُوْنُوْا رَبَّانِیِّیْنَ بِمَا کُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْکِتَـابَ وَبِمَا کُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَ ۔(آل عمران: ۷۹)
کسی بشر کاکام نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ تو اسے کتاب و حکمت اور نبوت عطا فرمائے ، اور وہ لوگوں سے کہنے لگ جائے کہ تم لوگ میرے بندے بن جائو ، لیکن وہ یہ کہتاہے کہ تم اللہ والے بنو ، کیونکہ تم کتاب کی تعلیم دیتے ہواور اس کو پڑھتے ہو۔
جب نبی کو یہ حکم ہے ، تو سمجھنا چاہئے کہ دوسرے تما م وہ لوگ جو لوگوں کو وعظ ونصیحت کرتے ہیں ، ان کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے کو ، اپنی شخصیت کو درمیان سے ہٹاکر محض اﷲ کی طرف ، اﷲ کے دین کی طرف ، اﷲ کے بندوں کو دعوت دیں ، کیونکہ کتاب اﷲ پڑھنے پڑھانے کا تقاضا یہی ہے۔
بہرحال وعظ وتقریر کاکام تو کرنا ہے ۔ اﷲ تعالیٰ کاحکم ہے : وَذَکِّرْ فَاِنَّ الْذِّکْریٰ تَنْفَعُ الْمُوْمِنِیْنَ ( سورہ الذاریات :) تذکیر کرتے رہو ، کیونکہ تذکیر اہل ایمان کو نفع دیتی ہے۔لیکن تذکیرکس طرح ہو یہ مسئلہ خاصا اہم ہے ، جس طرح اہل ایمان دوسرے اعمال میں آزاد نہیں ہیں ، شریعت کے پابند ہیں ، ایسے ہی وعظ وتقریر بالفاظ دیگر تذکیر بھی پابند ہیں ، یہاں تذکیر کے لئے دو بنیادی چیزیں ہیں ، ایک قرآن ، دوسرے حدیث۔
مسند الہند حضرت شاہ ولی اﷲ صاحب محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے اصول تفسیر پر ایک مختصر رسالہ تحریر فرمایا ہے، جس کانام ’’الفوز الکبیر ‘‘ ہے ۔ اس میں ذکر فرمایا ہے کہ قرآن کریم کے بنیادی علوم پانچ ہیں ،۱۔علم احکام،۲۔ علم مخاصمہ ،۳۔علم تذکیر بآلاء اﷲ، ۴۔ علم تذکیر بایام اﷲ،۵۔ علم تذکیر بالموت ومابعد الموت۔ احکام میں عبادات ، معاملات، خاندانی