ہے ، اسی کے بقدر دلچسپی سے لوگ پہونچنے کااہتمام کرتے ہیں ، اس لئے مقرر حضرات کو چاہئے کہ جب کہیں پہونچنے کا وعدہ کریں ، تو ہر ممکن جدوجہد کرکے وہاں پہونچیں ۔ وعدہ کا پورا کرنا ایمان کے لوازم میں سے ہے ، اور وعدہ کی پروا نہ کرنا ، معمولی اعذار کی وجہ سے اس کو ٹال جانا ، نفاق کی علامت ہے، پس جب وعدہ کرلیا ، تو شدید مجبوری ہوتو الگ بات ہے،ورنہ ضرور پہونچ جانا چاہئے ، اورجب شدید مجبوری ہو،تو اس کی اطلاع منتظمین جلسہ کوضرور کردیں ، چاہے اس کے لئے آدمی بھیجنا پڑے ، اور اس ا طلاع میں غلط بیانی ہرگز نہ کی جائے ، ورنہ بات کھل کر رہتی ہے پھرعلماء اوردینداروں کا بھرم جاتا ہے، اور عوام میں بدگمانی پھیل جاتی ہے۔
کافی عرصہ کی بات ہے! ایک شہر میں جلسہ تھا، یہ جلسہ کسی ایک شخص نے اپنی ذمہ داری پر منعقد کیا تھا ، ایک ہی مقرر کو مدعو کیا تھا ، وہ صاحب ناموری کے اسٹیج پر ابھر رہے تھے، جلسے کے تمام انتظامات مکمل ہوگئے ، اشتہارات چھپ گئے ،عین جلسے کے دن عصر کے وقت ایک صاحب میرے پاس آئے کہ فلاں صاحب ایک جلسہ کرارہے ہیں ، سب انتظامات ہوگئے ہیں ، کچھ دیر پہلے مقرر صاحب کو فون کیاگیا ، تووہ بہت بیمار ہیں ، صاحب فراش ہیں ، انھوں نے معذرت کی ہے ، اب منتظمین کے ہاتھ پاؤں پھول رہے ہیں ، آپ چل کر جلسہ میں وعظ کہہ دیں ۔ اس وقت مجھے جلسوں سے اور جلسے کی تقریروں سے بغایت وحشت تھی ، میں نے بہت معذرت کی ، مگر وہ نہ مانے ، مجھے زبردستی کھینچ کر لے گئے ، دوروز کے بعد معلوم ہوا کہ وہی مقرر ، اسی دن ، اسی وقت دوسری کسی جگہ جلسہ میں شریک تھے ۔
اسی کے ساتھ اہل انتظام کو بھی لازم ہے کہ جب تک حضراتِ مقررین کی جانب سے وعدہ نہ ہو ، اشتہار میں نام نہ شائع کریں ، اس سلسلے میں اہل انتظام کی طرف سے بہت کمزوری دیکھنے میں آتی ہے ، مقرر اور واعظ کو معلوم نہیں ، اور شہرہ ہے کہ وہ فلاں جگہ جارہے ہیں ۔ دیانت داری ، راست بازی، ایفائے وعدہ دین کے بنیادی لوازم میں ہیں ،پس جو لوگ دین کی خدمت انجام دینا چاہتے ہیں ، انھیں ان باتوں کا خصوصی التزام ضروری ہے۔