ونمائش اور کسب معاش کاایک ذریعہ بن کر رہ جاتا ہے۔
علماء اور واعظین کی ذمہ داریاں بہت بڑی ہیں ، ان کے اقوال وارشادات کی طرح ان کے اعمال واحوال بھی لوگوں پر اثر کرتے ہیں ، بات تو بہت اچھی ہو، لیکن حال اچھا نہ ہو، یا عمل کچاہو، تو بات کی تاثیر تو جاتی ہی ہے، عالم کا وقا ربھی ختم ہوتا ہے، اور جب عالم کا وقار اور واعظ کی عظمت قلب میں نہ ہوتو نہ وعظ موثر ہوتا، اور نہ دین کی محبت ہی دل میں پیدا ہوتی، اور عوام کے دلوں میں سب سے زیادہ بے وقعتی جس چیز سے پیدا ہوتی ہے وہ مال کی حرص اور اس کا سوال ہے، بلکہ اگر لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ فلاں عالم کے قلب میں مال کی عظمت ہے، تو صرف اتنے سے وہ نگاہوں سے گرجاتا ہے، حدیث کی مشہور کتاب مشکوٰۃ شریف میں حضرت سفیان ثوری علیہ الرحمہ سے نقل کیاگیا ہے کہ امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب ص نے ایک مرتبہ مشہور اہل کتاب تابعی حضرت کعب احبار علیہ الرحمہ سے پوچھا کہ : اصحاب علم کون لوگ ہیں ؟ عرض کیا کہ وہ لوگ جو اپنے علم کے مطابق عمل کرتے ہیں ، فرمایا کہ وہ کیا چیز ہے جو علماء کے قلوب سے علم کو نکال باہر کرتی ہے؟ عرض کیا کہ : طمع، یعنی حرص اور لالچ۔( رواہ الدارمی)
انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کا متفقہ اعلان ان کی قوموں میں یہ ہوتا تھا کہ لَا أَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ أَجْراً إِنْ أَجْرِیَ إِلَّا عَلَی اﷲِ ، میں اپنی اس خدمت پر جو ہدایت وارشاد کے متعلق کررہا ہوں ، تم سے کسی اجر اور معاوضہ کا طالب نہیں ہوں ، میرا اجر تو محض اﷲ پر ہے۔ اس اعلان نے تمام اقوام کو اس طرف سے مطمئن کردیا کہ یہ جو کچھ ہم سے کہاجارہا ہے اس کے نتیجے میں مال و جاہ کا کوئی سوال نہ ہوگا، اگر قوموں کو اس کا ذرا بھی خطرہ گزرتا، تو وہ سب سے زیادہ اسی پر شور مچاتیں ، اور اگر کسی کا مقصدکسی درجہ میں حصول زر ہو، تو وہ اپنی مخاطب قوم کی مخالفت کبھی مول نہ لے گا، بلکہ وہ ان کی من پسند باتیں کرے گا، تاکہ اس کی جیب گرم ہوتی رہے۔
ایک عالم اور واعظ کی یہ بڑی تذلیل ہے کہ اسے حرص مال کی طرف منسوب کیا