کرسی ٔوعظ پر بیٹھ جاتے ہیں ، پھر الٹی سیدھی باتیں ، اﷲ ورسول کانام لے لے کر بیان کرنے لگتے ہیں ، وہ سخت خطرناک راہ پر چل رہے ہیں ، بعض تو بالکل ہی بے علم ہوتے ہیں ، مگر بے دھڑک بیان کرتے ہیں ، اور اگر اس پر ٹوکا جاتا ہے،تو کہتے ہیں کہ ہم وعظ وتقریر نہیں کرتے، ہم تو بات چیت کرتے ہیں ، اﷲ جانے مجمع عام کے سامنے کھڑے ہوکر یا بیٹھ کر کچھ کہتے رہنے کو دوخانوں میں کیسے تقسیم کیا جاسکتا ہے کہ یہ بات چیت ہے ، یہ سب کے لئے روا ہے، اور جو کچھ کہیں سب جائز ہے، اور کب وہی وعظ وتقریر ہوجاتی ہے ،کہ اس کے لئے صاحب علم ہونا ضروری ہے۔
یہ محض فریب نفس ہے، ایسے لوگوں کو بیان کرنا جائز ہی نہیں ہے، جو صحیح اورقدرے معتد بہ معلومات نہ رکھتے ہوں ۔ وعظ وبیان ایک عبادت ہے، اور بہت سی عبادات کے زندہ ہونے کا ذریعہ ہے، لیکن بے علمی اور جہل کے ساتھ یہ عبادت فاسد ہوجاتی ہے ۔ حضرت عوف بن مالک اشجعی ص فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم ا سے سنا ہے ، آپ فرمارہے تھے: لایقص إلا أمیر أو مامور أو مختال ( رواہ ابوداؤد فی کتاب العلم )
وعظ وبیان تین ہی آدمی کرتے ہیں ، امیر، یا مامور،یامتکبر۔
مشہور تابعی حضرت شریح سے منقول ہے کہ یہ حدیث وعظ وتقریر سے متعلق ہے ، یعنی امراء وسلاطین خطبۂ وتقریر کے ذمہ دار ہوتے تھے ، لوگوں کو نصیحت کرتے تھے ، اور انھیں تنبیہ وتذکیر کیا کرتے تھے ۔ اور مامور، وہ ہے جسے امام وعظ وتقریر کے لئے متعین کرے، پس وہ لوگوں کو نصیحت کرے اور ان کے سامنے بیان کرے۔ اور مختال وہ ہے جو از خود اپنے آپ کو واعظ ومذکر بناکر پیش کرے، اور جاہ ومرتبہ کے حصول کے لئے اسٹیج پر بیان کرے، وہ نمائش اور کبر کے اندر مبتلا ہو۔ (بذل المجہود،ج:۱۱،ص: ۳۹۷)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وعظ اسے کہنا چاہئے جو مامور وماذون ہو، یہ امراور اجازت اصلاً تو حکومت اسلامی کی طرف سے ہونی چاہئے، لیکن ہمیں اسلامی حکومت کہاں نصیب ؟ تو کم ازکم معتبر علماء ومشائخ کی طرف سے اجازت ہو، بلکہ حکم ہو، ورنہ یہ کام نمود