مولانامحمداسماعیل صاحب شہیدکا، اور انھیں کا وعظ موثر ہوسکتا تھا ، دیکھو اگر کسی کو پاخانہ پیشاب کی حاجت ہوتو اس کے قلب میں اس وقت تک بے چینی رہتی ہے جب تک وہ ان سے فراغت نہ حاصل کرلے، اور اگر وہ کسی سے باتوں میں بھی مشغول ہوتا ہے ، یا کسی ضروری کام میں لگاہوتا ہے ، تو اس وقت بھی اس کے قلب میں پاخانہ پیشاب ہی کا تقاضا ہوتا ہے، اور طبیعت اس کی اسی طرف متوجہ ہوتی ہے ، اور وہ چاہتا ہے کہ جلد سے جلد اس کام سے فراغت پاکر قضائے حاجت کے لئے جاؤں ، سو واعظ اور اس کے وعظ کی تاثیر کے لئے کم ازکم اتنا تقاضا ئے ہدایت تو ضرور ہونا چاہئے جتنا کہ پاخانہ پیشاب کا، اگر اتنا بھی نہ ہوتو نہ واعظ وعظ کا اہل ہے، اور نہ اس کا وعظ موثر ہوسکتا ہے، ہم لوگوں کے قلوب میں ہدایت کا اتنا تقاضا ہی نہیں ، جتنا کہ پاخانہ پیشاب کا، اس لئے نہ ہم وعظ کے اہل ہیں ، اور نہ ہمارا وعظ موثر ہوسکتا ، ہاں یہ تقاضا مولوی اسمٰعیل صاحب کے دل میں پورے طور سے موجودتھا ، اور جب تک وہ ہدایت نہ کرلیتے ان کو چین نہ آتاتھا۔‘‘
واقعہ یہ ہے کہ وعظ کا موضوع ہدایت خلق اور تذکیر اہل ایمان ہے ، حق تعالیٰ نے فرمایا : وَذَکِّرْ فَإِنَّ الْذِّکْریٰ تَنْفَعُ الْمُوْمِنِیْنَ ، اور یاددہانی کراتے رہو، یہ یاددہانی اہل ایمان کے لئے نافع ہے، تو جب وعظ کا موضوع ومقصودیہ ٹھہرا، تو واعظ کو اس کا اہتمام کرنا ضروری ہے، کہ
(۱) وعظ محض اﷲ کے لئے ہو، اس سے کوئی دنیاوی غرض، خواہ مال ہو یا جاہ ومرتبہ ،وابستہ نہ ہو۔
(۲) وعظ کے لئے صحیح معلومات اور صحیح علوم کا انتخاب کیا گیا ہو، واعظ در حقیقت اﷲ ورسول کا ترجمان ہوتا ہے، اور ترجمان کے لئے ضروری ہے کہ جس کی ترجمانی کرنی ہے، اس کی منشا معلوم ہو، پھر اسے پوری دیانت داری کے ساتھ ادا کرتا ہو، بے علمی یا کم فہمی یا بد فہمی کے ساتھ جو وعظ ہوگا ، وہ گمراہی کا ذریعہ بنے گا۔ جو لوگ ناقص علم اور غلط معلومات لے کر