چاہتا ہوں وہ بڑی ہے، پس ’’ چھوٹا منہ بڑی بات‘‘ کی مثل کہی جاسکتی ہے، لیکن بڑے لوگوں سے توقع ہوتی ہے کہ وہ چھوٹوں کی بات بھی سن لیتے ہیں ، خدا کرے اچھی بات، اچھے انداز میں کہنے کی توفیق ہو۔
ہمارے یہ دینی جلسے وعظ نصیحت اور تذکیر واحتساب کے لئے منعقد کئے جاتے ہیں ، یہی چیزیں ان جلسوں کا موضوع ہیں ، عقائد کابگاڑ ہو، رسوم بد کا رواج ہو، فرائض سے غفلت ہو، حقو ق اﷲ سے لاپروائی ہو، حقوق العباد کی پامالی ہو، یا گناہوں میں ابتلاء ہو، ان سب پر روک ٹوک، شریعت پر عمل کرنے کی تلقین ، اﷲ ورسول کی محبت وعظمت ، عبادات کی ترغیب، صحیح اسلامی زندگی گزارنے کی فہمائش، آخرت ، قیامت، جنت ودوزخ کی تذکیر! یہی وہ عناصر ہیں جن سے ہمارے یہ جلسے ترکیب پاتے ہیں ، یہ سب کام اﷲ کے حکم سے انبیاء کرام علیہم السلام نے کئے ہیں ، ان کے جانے کے بعد ان کے وارثین یعنی علماء ربانیین کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ یہ خدمت انجام دیں ۔ اسی لئے جلسوں میں حضرات علماء کرام کو مدعو کیاجاتا ہے کہ یہ حضرات اﷲ ورسول کے حوالے سے عوام الناس کو دین کی باتیں سمجھائیں ، ان وعظوں کے اثرسے قلوب متاثر ہوتے ہیں ، عبادت کی رغبت بڑھتی ہے، گناہوں سے خوف ہوتا ہے، جنت کا شوق اور جہنم سے ڈر پیدا ہوتا ہے، دنیا کی محبت کم ہوتی ہے۔
پچھلے دور میں حضرت مولانا محمد اسماعیل صاحب شہید اور حضرت مولانا عبد الحی صاحب نمونہ کے واعظین میں تھے ، ان کے وعظوں سے قلوب کی کایا پلٹ ہوجاتی تھی، یہ حضرات بہت بڑے عالم، صاحب نسبت اور صاحب تقویٰ بزرگ تھے ، اور بڑے بڑے بزرگوں کے صحبت یافتہ تھے، ان دونوں حضرات کے وعظ نمونے کے ہوتے تھے ، ان کے وصال کے بعد بانی دار العلوم دیوبند حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی قدس سرہٗ انھیں کے نمونے کے واعظ تھے ، مولانا بہت کم وعظ کہتے تھے، اگر کوئی زیادہ اصرار کرتا ، تو کہہ دیتے۔ ایک مرتبہ کسی کے اصرار پر فرمایا:
’’ وعظ ہم لوگوں کا کام نہیں ، اور نہ ہمارا وعظ کچھ موثر ہوسکتا ہے، وعظ کام تھا،