جاتا ہے ، سونے لگتا ہے ، اور اصل مقرر کے حصے میں بچا کھچا مجمع اور وہ بھی ایک حصہ سوتا ہوا نصیب ہوتا ہے، اب یہ اس کی طاقت کا کرشمہ ہوتا ہے کہ سوتوں کو جگالے اور بھاگتوں کو بلالے۔ اس طرح رات کا بڑا حصہ گزرجاتا ہے، اور سامعین کے پلے زیادہ تر یہی بات پڑتی ہے کہ فلاں صاحب تو بالکل بے مزہ تھے ، یا فلاں صاحب غنیمت تھے ، البتہ فلاں صاحب کی تقریر اچھی ہوئی ، قلوب پر کیا اثرات ہوئے ، ایمان کتنا جاگا، عمل کا ذوق ابھرا یا نہیں ؟ اﷲ کی محبت ، رسول کی محبت ، شریعت کی عظمت، آخرت کی رغبت، جنت کا شوق، جہنم کا خوف، دنیا کی بے ثباتی کا نقشہ دل میں کتنا جما ، عموماً مجمع ا ن سب چیزوں سے برکنار رہتا ہے، مقررین کے درمیان موازنہ ہی اصل موضوع کی جگہ لے لیتا ہے، اکثر جلسوں کا یہی حال دیکھنے میں آتا ہے۔
گرمی کا موسم جلسوں کے لئے موسم بہار ہے، اس موسم میں بکثرت جلسے ہوتے ہیں ، ان جلسوں میں عوام الناس کی تعداد جتنی بھی ہوتی ہو، آس پاس کے مدارس کے طلبہ بکثرت جاتے ہیں اور اپنی تعلیم کا بڑا نقصان کرتے ہیں ۔
میں بہت دنوں سے سوچا کرتا ہوں کہ جلسوں کے اس مروجہ دستور کو بدلنا چاہئے ، اس دستور میں فائدے ضرور ہیں ، مگر نقصان زیادہ معلوم ہوتا ہے، بعض لوگوں نے کچھ بدلا بھی ہے،مثلاً یہ کہ یہ جلسے بالعموم عشاء کے بعد شروع ہوتے ہیں ، لیکن بعض جگہوں میں یہ تبدیلی کی گئی کہ مغرب کے بعد ہی سے جلسے شروع کئے جانے لگے، اور گیارہ بجے کے قریب ختم کئے جاتے ہیں ، پھر عشاء کی نماز پڑھی جاتی ہے، اس کے بعد کھانے پینے کی مشغولیت رہتی ہے۔ اس تبدیلی کا یہ عذر بیان کیا جاتا ہے کہ دیر رات تک جلسہ ہوتا ہے اور صبح کو فجر کی نماز قضا ہوجاتی ہے، یہ بات تو درست ہے کہ دین کے لئے جاگتے ہیں ، اور دین ہی کا اہم فریضہ غائب کردیتے ہیں ، لیکن یہ خرابی مغرب بعد شروع ہونے والے جلسوں میں اتنی ہی ہے ، بلکہ اس سے زائدجو عشاء کے بعد جلسوں میں ہے ، گیارہ بجے جلسہ ختم ہوا، اچھا خاصا وقت عشاء کی نماز میں لگ جاتا ہے، پھر کھانے پینے کی مشغولیت رہتی ہے، نتیجہ کے اعتبار