سے رات وہیں تک پہونچ جاتی ہے ، جہاں تک عشاء کے بعد جلسوں میں پہونچتی ہے ، مزید یہ کہ انسانی کلام کی وجہ سے عشاء کی نماز وقت معہود سے موخر کرنی پڑتی ہے، یہ خود ایک نامناسب چیز ہے، پھر جلسوں میں لوگ آخر تک بیٹھنے کے عادی نہیں ہوتے ، کتنے لوگ درمیان میں اٹھتے رہتے ہیں ، کتنے لوگ واپس چلے جاتے ہیں ، ان کی یا تو جماعت چھوٹتی ہے ، یا سرے سے نماز ہی ترک ہوجاتی ہے، کیونکہ سستی اس وقت تک خوب غلبہ پالیتی ہے، اس سلسلے میں مناسب یہی ہے کہ جلسہ عشاء کے بعد ہی ہو ، دیر رات ہونے کا دوسرا علاج کرنا چاہئے۔
اس کی اصلاح کا طریقہ مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ جلسے کے آغاز کی بے ضابطہ کارروائیاں بالکل بند کردی جائیں ، جلسہ عشاء کی نماز کے بعد فوراً شروع کردیا جائے ، اور اس میں نعت کا خانہ بند کردیا جائے ، نظم میں رسول اﷲ ا کی تعریف کرنے سے بہتر نثر میں ہے ، اور وعظ میں جو کچھ بیان کیا جاتا ہے، وہ اﷲ کی کبریائی اور نبی اکی محبت وعظمت اور عقیدت کے علاوہ اور کیا ہوتا ہے، پس یہی نعت کافی ہے اور اصل ہے ، باقی نعت خوانیاں گلے کا زور اور حظ نفس ہے۔ بس ابتداء میں قرآن کی تلاوت کرادی جائے ، اس کے بعد اصل وعظ شروع ہوجائے ، نہ مجمع کو پکارا جائے، نہ اس کا انتظارکیا جائے ۔ تجربہ یہ ہے کہ تقریر شروع ہوتے ہیں مجمع آجاتا ہے، ایک گاؤں میں ہلکا پھلکا ایک جلسہ تھا ، اناؤنسر صاحب مسلسل پکار رہے تھے کہ جہاں تک میری آواز جاتی ہو، لوگ جلسہ گاہ میں حاضر ہوں ، میں سنتے سنتے اکتا گیا ، میں جلسہ گاہ سے کچھ دور منتظمین کے ہجومِ ضیافت میں محصور تھا، میں عجلت میں اسٹیج پر پہونچ گیا، دیکھاتو مجمع نام کی کوئی چیز نہ تھی ، اناؤنسر اکیلا گھگھیارہا تھا ، میں نے کہا کہ یہ گزارش بند کیجئے ، اور جلسہ شروع کیجئے ، قرأت ہوئی ، ایک نعت ہوئی ، اور میں نے تقریر شروع کردی ، دم کے دم میں مجمع جم گیا۔
اناؤنسر صاحب ، اناؤنسری کے مد میں جو تقریر کرتے ہیں ،وہ بھی موقوف کریں ، اس طرح وقت بہت سا بچ جائے گا۔ اب وہ بات کہنا چاہتا ہوں جو اصل ہے ، وہ یہ کہ ایک