تقریر کردیتے ، لوگ وہاں حاضر ہوتے ،اور ضرورت اور وقت کے مطابق ان کے وعظ ہوتے ، بعض مرتبہ وعظ سے پہلے کوئی قاری قرآن کچھ آیتیں پڑھتا ، پھر وہ بزرگ انھیں آیات کا ترجمہ کرتے ، تشریح کرتے ، عموماً وعظ کا یہی دستور تھا ، ان دنوں خانقاہیں آباد اور معمور تھیں ، لوگ ان خانقاہوں اور تربیت گاہوں میں حاضر ی دیتے اور دینی ودنیوی منافع سے مالامال اور نہال ہوکر لوٹتے۔
پھر جب مسلمانوں کی حکومت یہاں سے گئی ، اور انگریزوں نے قدم جمائے ، تو پچھلی قدریں آہستہ آہستہ بدلتی گئیں ، حقیقت کی جگہ نمائشیں ابھرنے لگیں ، ہر چیز کے طور میں تبدیلی آنے لگی، تو وعظوں کا دستور بھی متاثر ہوا، اور اب جو صورت حال عرصہ سے ہمارے سامنے ہے ، وہ یہ ہے کہ ایک رات یا دورات کا جلسہ ہوتا ہے ، ایک ایک جلسہ میں متعدد مقررین کو دعوت دی جاتی ہے، خوش گلو نظم خواں بلائے جاتے ہیں ، اشتہار شائع کئے جاتے ہیں ، اکثر جگہوں پر جلسہ کے باضابطہ آغاز سے پہلے چھوٹے بڑے متعدد نعت خواں اپنے جوہر آزما چکے ہوتے ہیں ، پھر جلسہ کا باضابطہ آغاز ہوتا ہے ، لوگ ادھر ادھر منتشر ہوتے ہیں ، تحریک صدارت ہوتی ہے ، تائید ہوتی ہے، ادھر چند برسوں سے تائید کا سلسلہ کم رہ گیا ہے، اناؤنسر اعلان کے نام پر اچھی خاصی تقریر کرلیتا ہے ، بعض اناؤنسر اشعار سے اپنی تقریر سجاتے ہیں ، پہلے ایک یا دو قرأت ہوتی ہے ، پھر نعت خواں طلب کئے جاتے ہیں ، وہ کافی وقت لے لیتے ہیں ، کبھی کبھی دودوتین تین نعت خواں ہوتے ہیں ۔ بریلویوں کا جلسہ ہوا، تو اس پر مجلس وعظ سے زیادہ محفل مشاعرہ کا گمان ہوتا ہے، اتنی دیر تک مجمع ادھر ادھر رہتا ہے ، اناؤنسر آدابِ مجلس کا حوالہ دے کر لوگوں کو پنڈال میں سمیٹنے کی کوشش کرتا ہے ، لیکن بکھرا ہواہر آدمی سمجھتا ہے کہ میں اس کا مخاطب نہیں ہوں ، دوسرے لوگ ہیں ، پھر جب تقریر شروع ہوتی ہے ، تو تقریر کے انداز اور تقریر کرنے والے وزن کے اعتبار سے لوگ بیٹھنے لگتے ہیں ،جلسوں میں دستور ہے کہ پہلے ہلکے پھلکے مقررین بلائے جاتے ہیں ، پھر اصل مقرر کو دعوت دی جاتی ہے، لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ نعت خوانی اور ہلکی پھلکی تقریر یں اتنا وقت لے لیتی ہیں کہ مجمع اُکتا