تجویزوں کی روشنائی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ ایک بڑے حادثے نے علماء ومدارس کی بڑی تعداد کو اپنی لپیٹ میں لے کر ان کے ذہن ودماغ اور ان کی قوت کار کو کہیں سے کہیں پہونچادیا ۔ وہ یہ کہ جمعیۃ علماء ہند کے صدر کو ، جو دار العلوم دیوبند کے مذکورہ اجلاس کے روح رواں تھے، معزول کرکے دار العلوم ہی کے ایک دوسرے استاذکوجو صدر صاحب کے قریبی رشتہ دار بھی ہیں ، عبوری صدر بنادیا گیا ، اب یہ تنازعہ نہ صرف جمعیۃ کو بلکہ دار العلوم جیسے موقر ومحترم ادارے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے ، اجلاس کی روح تو فنا ہوہی گئی ، خود جمعیۃ اور دار العلوم کے لالے پڑگئے ہیں ۔
عجیب شے ہیں آپ بھی جہاں بھی سایہ پڑگیا
کہیں بہار لٹ گئی کہیں چمن اجڑ گیا
جو سینۂ ودماغ پر پڑی نگاہِ فتنہ گر
تو گتھ گئے دل وجگر خرد سے ہوش لڑگیا
میں نے اسے نیاکام کہا ، وہ اس لئے کہ اس طرح کی تحریکات …جن کا تصادم براہ راست حکومت سے ہو… سے دار العلوم کو ہمیشہ دور رکھاگیاہے ، دار العلوم دیوبند اپنے روزِ اول سے انگریزی حکومت کے خلاف رہا ہے، دار العلوم دیوبندکے بانی مولانا محمد قاسم نانوتوی، ان کے خاص شاگرد شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی ، پھر ان کے خصوصی تلمیذ شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی علیہم الرحمہ نے براہ راست انگریزی حکومت سے ٹکر لی تھی ، مگر اس ٹکراؤ اور تصادم میں دار العلوم کو شریک نہ کیا ، اس کا میدان دارالعلوم سے باہر بنایا، چنانچہ کوئی تاریخ بتا نہیں سکتی کہ دارالعلوم دیوبند کی جانب سے انگریزی حکومت کے خلاف کوئی تحریک چلائی گئی ہو ، یا کوئی جلسہ اس مد میں کیا گیا ہو۔ انگریزوں کے چلے جانے کے دس سال بعد تک حضرت مدنی قدس سرہٗ دار العلوم دیوبند کے شیخ الحدیث اور صدر مدرس بلکہ روح کل رہے، اور حالات بھی بہت آئے ، یہاں تک کہ حکومت نے ایک مرتبہ دار العلوم کی تلاشی بھی لی ، مگر دار العلوم دیوبند میں حکومت کے اقدامات کے خلاف کوئی عام جلسہ نہیں کیا گیا، اب اﷲ جانے انھیں کے اخلاف کو کیا سوجھی کہ دار العلوم دیوبند کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف اجلاس بلاڈالا۔ اس اجلاس کی