تحریک سے پہلے ایک اور اسی طرح کے موضوع پر سیمینار یااجلاس کا پروگرام بنایا گیا تھا ، جس کا موضوع تھا’’ملک کی آزادی میں علماء دیوبند کا کردار‘‘ ۔ مجھے اسی پر اشکال تھا، اور سوچا تھا کہ ادب سے اربابِ انتظام کی خدمت میں عرض کروں گا کہ یہ کام دار العلوم سے باہر دوسری تنظیموں کے کرنے کا ہے، دار العلوم کو اس سے بچائیے ، مگر وہ تو معرض التواء میں چلا گیا ، اور خدا کرے کہ منسوخ ہی ہوجائے، لیکن اس سے بڑھ کر یہ مذکورہ اجلاس ہوگیا، اور اس کی خطرناکیاں بھی ظاہر ہوگئیں ۔ اس تفصیل سے قارئین نے سمجھ لیا ہوگا کہ میں نے اسے نیا کام کیوں کہا ؟
اخیر میں ، یہ عرض ہے کہ میں بہت چھوٹا ہوں ، میری گزارش اگر در خور اعتنانہ ہوتو بجا ہے ، تاہم عرض تو کرہی دوں کہ جمہوری تقاضوں پر دار العلوم دیوبندکو نہ دوڑائیے ،دار العلوم اپنے اندر علماء کی تربیت کرتا رہے، انھیں علماء سے دین کی بقاء اور تحفظ کا انتظام ہوگا۔دار العلوم دیوبند کو میدانِ کارزار نہ بنائیں ، تعلیم جتنی پختہ ہوگی، علم میں جتنا رسوخ ہوگا، علوم نبوت سے جتنا تعلق ہوگا ، علماء میں اتنی ہی پختگی ہوگی ، اور ان کے واسطے سے عام مسلمانوں میں پختگی آئے گی ۔ قوم کے ان کچے نونہالوں کو سیاست کی نذر نہ کریں ، ورنہ نہ دین رہے گا ، اور نہ سیاست! دار العلوم کا موضوع علم اور دین کی پختگی ہی ہے ، یہاں سے پختہ ہوکر نکلیں گے، تو جس میدان میں اتریں گے ، عزیمت وحوصلہ مندی ان کے ہمراہ ہوگی، اربابِ انتظام کو ئی کام اس کے موضوع کے خلاف نہ کریں ، اور دنیا والوں کی نقالی تو بالکل نہ کریں ، وہ مجوزہ سیمینار جس کے دعوت نامے ،اورمقالات کی فرمائشیں ملک بھر میں پھیل چکی ہیں ، اچھا یہ ہے کہ انھیں سرے سے ختم کردیں ۔ اقول قولی ھٰذا وأستغفر اﷲ لی ولسائر المسلمین ،آمین یارب العالمین۔
( اپریل ۲۰۰۸ء)
٭٭٭٭٭