مسلمانوں پر مختلف جہتوں سے مسلم پرسنل لاء کے متعلق ، اخبارات، ریڈیو، ٹیلی ویژن اور انٹر نیٹ کے ذریعے بے سروپا اعتراضات اور الٹے پلٹے سوالات اٹھائے جانے لگے ، کہ خود مسلمانوں کا اعتماد مسلم عائلی احکام پر باقی نہ رہے، کہیں شاہ بانو کیس، کبھی متبنیٰ بل، کبھی عمرانہ کیس،کبھی کچھ اور ، آپ کا کیا خیال ہے کہ اختلاف وافتراق کے یہ پودے خود بخود اُگ آتے ہیں ، یا ان کا بیج کہیں اور سے آتا ہے؟
ابھی تازہ واقعہ دسمبر ۲۰۰۷ء کی آخری تاریخوں میں ضلع اعظم گڈھ کے قصبہ سرائمیر میں عظیم الشان تبلیغی اجتماع ہوا، اجتماع کے پہلے سے اس کی تشہیر ہورہی تھی ، کیااس تشہیر سے جمہوریت کے کان بہرے تھے، پھر ہندوستان کے مختلف خطوں سے آدمیوں کا سیلاب امنڈا، اور بہت بڑا اجتماع ہوا، یہ اجتماع کیا نگاہوں سے اوجھل تھا ، پھر نہایت خاموشی سے اجتماع سے پہلے ہی ، اس کے ایک فعال نوجوان عالم حکیم محمد طارق کو اٹھالیا گیا، اجتماع ہوا، اور بہت بڑا ہوا، مگر سارا مسلمان اس میں الجھ گیا کہ طارق کو کیوں اٹھایا گیا ، اور پھر مختلف علاقوں سے لوگوں کے اٹھانے کا سلسلہ قائم ہوگیا ، تاکہ ایک ہی پر نگاہ مرکوز نہ ہوجائے ، اور پھر وہی ہوا، جو حکومتیں چاہا کرتی ہیں ، کہ اجتماع بے اثر ہوگیا، مسلمان دوسرے مسئلے میں الجھ کر رہ گیا ، اور اجتماع پس پشت چلا گیا ۔
پھر دار العلوم دیوبندمیں ایک نیا کام ہوا، وہ یہ کہ مسلمانوں کو اور خصوصاً علماء اور مدارس کو جو بدنام کیا جارہا ہے کہ ’’دہشت گرد ‘‘ ہیں ، اور یہ الزام لگاکر نوجوان علماء کو جیل خانوں میں ٹھونسا جارہا ہے، یہ حکومت کی بد نیتی ہے ، اور حکومت چونکہ جمہوری ہے ، اس لئے کثرت تعداد کا مظاہرہ کرکے اس کو اس مذموم حرکت سے باز رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے ، جمہوریت کی نگاہ کرم نے ، ملک میں کم ہی تنظیموں کو چھوڑا ہے ، جو بڑی تعداد کو جمع کرسکیں ، ہاں دار العلوم دیوبند کی آواز پر بہت بڑی تعداد اکٹھا ہوسکتی ہے ، چنانچہ ہوئی ، اور مختلف مکتب خیال کے لوگ شریک ہوئے ، میڈیا نے اسے خوب پھیلایا، ایسا معلوم ہوتاتھا کہ اب مدارس اور مسلمانوں کو دہشت گردی کے الزام سے نجات مل جائے گی ، لیکن ابھی اس اجلاس کی