بزرگوں نے مل کر ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک منتشر اکائیوں کو مربوط کرنے کی کوشش کی ، اور اس کے نتیجے میں مسلمانوں کے اندر عظیم پیمانے پر اتحاد کی صورت نمایاں ہوئی ، اس وقت مسلمانوں کی بڑی تعداد بھی میدان میں دکھائی دی ، اور ان کے اتحاد کا بھی غلغلہ ملک بھر میں گونجا، مجلس مشاورت وجود میں آئی ، لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ جتنی تیزی سے یہ اتحاد ابھرا تھا ، اتنی ہی تیزی سے بیٹھ بھی گیا ۔ جمہوری حکومت کو یہ کیونکر گوارا ہوتا کہ یہ اتحاد اس کے سر پر مصیبت بنے ، یہ اتحاد بکھرا، مگر اس طور پر بکھرا کہ جمہوریت کے دامن پر کوئی دھبہ نہیں آیا۔
اس کے بعد جب کوئی صورت مسلمانوں کے اتحاد واجتماع کی ظاہر ہوئی ، دیر نہیں گزری کہ اس میں رخنے پڑنے لگے ، اور بالآخر وہ صورت پارہ پارہ ہوکر رہ گئی ، دار العلوم دیوبند نے اجلاسِ صدسالہ کیا ، سرزمین دیوبند نے نہیں ، سرزمین ہند نے مسلمانوں کا اتنا بڑا اجتماع اور ہجوم کبھی نہ دیکھا تھا ، مگر جب اجلاس صد سالہ سے فراغت ہوئی ، تو دار العلوم کے افتراق کی بنیاد پڑگئی ، اس اجتماع سے مسلمانوں کوجو کچھ فائدہ پہونچ سکتا تھا، تو وہ ہوا ہوگیا ، اور نقصان کی متعدد راہیں کھل گئیں ، پھر دارالعلوم کے دو ٹکڑے ہوئے ، کچھ دنوں کے بعد مظاہر علوم کے دو ٹکڑے ہوئے ، جمعیۃ علماء ہند کے دو ٹکڑے ہوئے ، نقصان ہی نقصان، افتراق ہی افتراق!
پھر اتنا ہی نہیں ، اجلاس صدسالہ کے بعد مراد آبادمیں عین عید کے دن فساد عظیم ہوا، پھر میرٹھ، علی گڈھ ، الہ آباد ، کہاں کہاں نہیں اس کی آگ پھیلی ، آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ان حادثات میں جمہوری حکومت کی سازش نہیں ہے ؟ ممکن ہے نہ ہو ، مگر ایک ہی قسم کے حادثات کا تسلسل کیا بتارہا ہے؟
اور آگے بڑھئے ، مسلم پرسنل لاء بورڈ نے ، مسلمانوں کے مسائل پر غور کرنے اور ان کے تحفظ کے لئے مختلف الخیال علماء وقائدین کو ایک اسٹیج پر جمع کیا ، اور اس میں شبہ نہیں کہ اس کے بہت اچھے نتائج بر آمد ہوئے ، لیکن کیا یہ بھی سچ نہیں ہے کہ اس کے بعد مسلسل