دینی کے جتھوں کا ذکر نہیں ہے ، ان اداروں اور جماعتوں کا ذکر ہے ، جو مسلمانوں کی خدمت کیلئے ان کی صحیح رہنمائی کیلئے قائم ہوئی ہیں ، ان کی تحریریں پڑھئے ، ان کی تقریریں سنئے ، کیا ان میں یہ مرض نظر نہیں آتا ؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ الٹا سیدھا جو کام ان سے وجود میں آتا ہے چاہے وہ مسلمانوں کے حق میں مضر ہی ہو ، خواہ اس سے اﷲ تعالیٰ کی صریح نافرمانی ہی ہوتی ہو، لیکن ان پر تحریراً وتقریراً خوشی بلکہ فخر کا اظہار کیا جاتا ہے اور جو کام نہیں کیا ہے ، امیدوار رہتے ہیں کہ ان پر ان کی مدح وستائش ہوگی ، بلکہ اب تو اس کا بھی انتظار نہیں ہوتا کہ دوسرے ہمارے کئے کاموں پر ہماری مدح سرائی کریں ۔ بھلا اس کا انتظار کون کرے ۔ ہمارا اجتماعی معاشرہ اس سے ترقی کرکے خود ہی اپنی مدح وستائش کا راگ الاپتا ہے ، اور نا م اس خود ستائی کا ’’تعارف ‘‘ رکھا جاتا ہے ، اور یہ تاویل کی جاتی ہے زمانہ تشہیر وپروپیگنڈے کا ہے ، اس کے بغیر کام اور نام دب جاتا ہے ، ممکن ہے یہ تاویل کسی حد تک درست ہو ، لیکن غور کرنے والے غور کریں کہ کہیں یہ یہود ومنافقین کی پیروی تو نہیں ہے ؟ بالخصوص اس وقت جب کہ یہ بھی دیکھا جاتا ہے ، کہ بہت سے ادارے ، بہت سی انجمنیں ان خوبیوں سے خالی ہوتی ہیں ، ان کا اندرونی نظام خود ان کے کارکنوں کیلئے باعث مصیبت بنا ہوتا ہے ، وہ خود تفرق وانتشار کا شکار ہوتی ہیں ۔ ان کی بے عملی اور ناکارگی کی شکایتیں عام ہوتی ہیں ، لیکن جب تعارف شائع ہوگا تو اس طرح شائع ہوگا کہ جیسے دین کی اور مسلمانوں کی خدمت ان کے علاوہ کسی اور جانب سے ہوتی ہی نہیں ، کتنے مکاتب فکر ہیں ، جو اپنی ظاہری وباطنی غلطیوں کے باوجود خود کو معصوم ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں ، یہ صورت حال خود ستائی اور اپنی مدح سرائی کی بہت تشویشناک ہے ، اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔ ھُوَ أعْلَمُ اِذْ أنْشَأ کُمْ مِنَ الْاَرْضِ وَاِذْ أنْتُمْ أجِنَّۃٌ فِیْ بُطُوْنِ أمَّھَاتِکِمْْ فَلاَ تُزَکُّوْا أنْفُسَکُمْ ھُوَ أعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی(النجم ،۳۲) تم کو وہ خوب جانتا ہے جب بنا نکالا تم کو زمین سے ، اور جب تم بچے تھے ماں کے پیٹ میں ، سو مت بیان کرو اپنی خوبیاں ، وہ خوب جانتا ہے ، اس کو جو بچ کر نکلا ۔(ترجمہ شیخ الہند)
یعنی اگر تقویٰ کی کچھ توفیق اﷲ نے دی تو شیخی نہ مارو ، اور اپنے کو بہت بزرگ نہ