ہیں کہ لوگ ہماری تعریف کریں کہ بڑے عالم اور دین دار حق پرست ہیں ۔ دوسری طرف منافقین کا حال بھی ان کے مشابہ تھا ۔ جب جہاد کا موقع آتا ، گھر میں چھپ کر بیٹھ رہتے ، اور اپنی اس حرکت پر خوش ہوتے کہ دیکھو کیسے جان بچائی ، جب حضور جہاد سے واپس تشریف لاتے تو غیر حاضری کے جھوٹے عذر پیش کرکے چاہتے کہ آپ سے اپنی تعریف کرائیں ، ان سب کو بتلادیا گیا کہ یہ باتیں دنیا وآخرت کے عذاب سے چھڑا نہیں سکتیں ، اول تو ایسے لوگ دنیا میں فضیحت ہوتے ہیں ، اور کسی وجہ سے یہاں بچ گئے تو وہاں کسی تدبیر سے نہیں چھوٹ سکتے ۔(تنبیہ) اس آیت میں گو تذکرہ یہود یا منافقین کا ہے ، لیکن مسلمانوں کو بھی سنانا ہے کہ برا کام کرکے خوش نہ ہوں ، بھلا کرکے اترائیں نہیں ، اور جو اچھا کام کیا نہیں اس پر تعریف کے امیدوار نہ رہیں بلکہ کرنے کے بعد بھی مدح سرائی کی ہوس نہ رکھیں ‘‘
اس اس آیت پر اور اس کے مضمون پر نہایت سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہئے اور ہم اسلام کے نام لیواؤں کو دیکھنا چاہئے کہ ہمارے افراد میں اور ہمارے اجتماعی معاشرہ میں یہ مرض پھیلاہوا تو نہیں ہے ؟ انفرادی طور پر ہمارا یہ حال دیکھنے میں آرہا ہے کہ آدمی گناہ کرتا ہے ، اﷲ تعالیٰ کے حکم کو توڑتا ہے ، کسی نے کسی کو ستایا ، اس کا مال دبایا ، کسی کی زمین غصب کی ، کاروبار میں کسی کو دھوکہ دیا ، قرض لیا اور ادا کرنے میں ٹال مٹول کیا ، یا بالکل ہی ادا نہیں کیا ، نماز کو ترک کیا ، روزہ سے جان بچائی ، زکوٰۃ کامال ہضم کرلیا ، یہ سب وہ گناہ ہیں ، جن کے گناہِ کبیرہ ہونے میں کسی مسلمان کو تردد نہیں ہے ، لیکن ہوتا یہ ہے کہ ان پر شرمندگی تو کیا ہوتی ؟ ان کے کرنے پر آدمی جھینپتا تو کیا ؟ الٹے ان پر فخر کیا جاتا ہے ، اپنی چالاکی اور عقلمندی کی شہادت انھیں سمجھا جاتا ہے ، اور یہ بات کوئی اکادکا واقعات کی صورت میں نہیں ظاہر ہوتی، بلکہ اس کا عام چلن ہے ۔
اور اجتماعیت کا حال دیکھئے تو اور بھی دگرگوں ہے ۔ آج کل اجتماعیت نام ہے تنظیموں کا ، جماعتوں کا ، انجمنوں کا ، اداروں کا ، مکاتب فکر کا ، یہاں سیاسی پارٹیوں اور بے