اپنی ذات ، اپنی پارٹی اور اپنے خاندان کے علاوہ کسی اور حلقے میں حکومت کو جانے ہی نہ دیتے ، لیکن وہ قدرتِ الٰہی کے سامنے بے بس ہیں ، قدرت جسے چاہتی ہے حکومت دیتی ہے، جس سے چاہتی ہے چھین لیتی ہے ، اَللّٰھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآئُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآئُ ( سورۂ آل عمران :)اے اﷲ!اے ملک کے مالک ! آپ جسے چاہیں حکومت دیں ، اور جس سے چاہیں چھین لیں ۔
ایک مدت تک یہاں مسلمانوں کی حکومت رہی ، پھر انگریزوں کو ملی ، انگریزوں سے حکومت چھینی گئی ، تو ملک دو حصوں میں تقسیم ہوگیا ، اس تقسیم کے بعد جن ہاتھوں میں حکومت پہونچی ، ادل بدل کر ابھی تک انھیں ہاتھوں میں ہے ، اس حکومت میں مسلمان اقلیت میں ہیں ، کسی بھی جمہوریت میں اقلیت ایک جرم ہے ، اکثریت جس کے ہاتھ میں حکومت ہوگی ، وہ ہر ممکن کوشش کرے گی کہ اقلیت بڑھنے اور پھیلنے نہ پائے ، وہ اس حیثیت میں کبھی نہ آئے کہ اقلیت اس کے مد مقابل کھڑی ہوجائے۔
جموری مزاج یہی ہے کہ اقلیت ، اقلیت ہی میں رہے ، جب جب اقلیت نے اقلیت میں ہونے کے باوجود اپنی تعداد کی کثرت دکھائی ہے ، تو جمہوری حکومت نے اس میں قطع وبرید کا عمل جاری کیا ہے ، الیکشن میں اس قطع وبرید کا تماشا مسلسل دیکھنے میں آتا ہے ، جہاں کسی اقلیت کی تعداد کسی حلقے میں بڑھی ، وہیں اسے مختلف حلقوں میں تقسیم کرکے اقلیت کی جانب لوٹا دیا جاتا ہے۔
اور اگر کسی نے اپنی کثرت تعداد کی نمائش کی تو تمام ذہانتیں اس پر مرکوز ہوجاتی ہیں ، کہ اس تعداد اور اس اتحاد کو کسی ایسے طریقے سے توڑ دیا جائے کہ الزام اقلیت ہی کے سر جائے ، اور اکثریت کا دامن پاک ہی رہے ۔
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ تم قتل کروہو کہ کرامات کروہو
تقسیم ملک کے بعد جب ایک ہی ملت کے خلاف جارحانہ فسادات ، بلکہ نسل کشی کا سلسلہ شروع ہوا، تو مسلمان قائدین کو ایک جوش پیدا ہوا، ایک نیا ولولہ پیدا ہوا، اور متعدد