ہیں اور بیزار بھی ! ان اعمال کی افادیت ، نمائش کے نتیجے میں باطل ہوکر رہ جاتی ہے۔
۱۹۷۰ء میں تبلیغی جماعت میں ، میں نے ایک چلہ وقت لگایا ، اس جماعت کے جو امیر تھے وہ ایک بزرگ شخص تھے ، حضرت منشی اﷲ دتا علیہ الرحمہ کے خلیفہ اور مرکز کے اکابر کے قریب تر ! وہ اکثر فرمایا کرتے تھے:اور مجھے خوب یاد ہے کہ حضرت جی مولانا محمد یوسف صاحب نور اﷲ مرقدہٗ بڑے اجتماعات کی اجازت نہیں دیتے تھے ، وہ فرماتے تھے کہ چھوٹے اجتماع ایک روز کے کرلیا کرو ، اس کا نفع زیادہ ہے ، ہندوستان کی حد تک بڑے اجتماع کی اجازت صرف بھوپال کے لئے مرحمت فرمائی تھی۔ اگر یہ بات صحیح ہے ، تو مرکز کے موجودہ اکابر کو اس پر غور کرنا چاہئے۔
عوام کا طرزعمل تو قابو سے باہر ہے، اکابر اس کے پیچھے نہ چلیں ، بلکہ شریعت وسنت کے مزاج اور حالات کی دینی مصلحتوں کے مطابق فیصلے صادر فرمائیں ، یہی درخواست اربابِ مدارس سے بھی ہے کہ خاموش جدوجہد کریں ، پروپیگنڈے کی طرف توجہ نہ دیں ، لوگوں کا مزاج بھیڑ بھاڑ کا نہیں دینی واخلاقی بنانے کی سعی کریں ۔ مسجدیں خالی ہیں ، اگر کسی عارض کی وجہ سے کچھ نمازی بڑھتے بھی ہیں تو دیر نہیں لگتی کہ گھٹ جاتے ہیں ، جلسوں کی ہنگامی بھیڑبھاڑ کاکچھ اعتبار نہیں ، پائیدار کام کی تدبیر کرنی چاہئے۔
ممکن ہے میری یہ معروضات بعض دلوں پر گراں گزرے ، مگر یہ بات ضروری تھی ، عرض کردی ۔ اﷲ تعالیٰ خیر کی توفیق بخشیں ۔
(فروری، مارچ ۲۰۰۸ء)
٭٭٭٭٭