اتنی صفیں تھیں ، اس کے علاوہ اور کوئی بات سننے کو نہیں ملی ۔ یہ وہی ْ أَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ والا حال ہے ، تین دن کے اجتماع میں جس کے انتظامات ایک سال سے ہورہے تھے ، لاکھوں لاکھ روپئے خرچ ہوئے ، اگر اس کا حاصل یہی فخر وناز ہے ، تب کچھ اچھا حاصل نہیں ہے!
واقعہ یہ ہے کہ اتنے بڑے جلسے ہندوستان جیسے ملک میں بالخصوص نہیں ہونے چاہئیں ۔ ان کے فوائد کم اور نقصانات زیادہ ہوتے ہیں ، دینی اعتبار سے یہ نقصان ہوتا ہے کہ بڑے جلسے میلے کی شکل اختیار کرلیتے ہیں ، سیر وتفریح ، خرید وفروخت، تجارت وغیرہ کے مرکز بن جاتے ہیں ، یہی مزاج لے کر لوگ آتے ہیں اور یہی مزاج لے کر واپس ہوجاتے ہیں ، بس تعداد کی کثرت، بھیڑ بھاڑ، کھانے پینے کے انتظامات یاد رہ جاتے ہیں ، ان اثرات کے ہجوم میں دینی نفع دب جاتا ہے ۔اور دنیاوی نقصان یہ ہوتاہے کہ مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد کو فرقہ پرست مخالفین دیکھتے ہیں ، تو ان کے سینوں پر سانپ لوٹ جاتا ہے، پھر یہ سانپ انھیں زہریلی سازشوں کی طرف لے جاتا ہے، حکومت بھی چونکتی ہے، حکومتوں کا مزاج یہ ہے کہ وہ بڑے مجامع سے گھبراتی ہیں ، انھیں ان مجامع میں اپنا زوال دکھائی دینے لگتاہے، پھر ان کا تشدد بڑھ جاتا ہے۔
حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہٗ کے ایک بڑے خلیفہ حضرت سیّد آدم بنوری علیہ الرحمہ تھے ۔ ایک مرتبہ شاہ جہاں جیسے دینی مزاج کے بادشاہ نے ان کے ساتھ بہت بڑا مجمع دیکھا، تو اسے کھٹک پیدا ہوگئی، اس نے لطائف الحیل سے حضرت کو حج کے لئے سرزمین پاک بھیجوادیا۔ اور پھر وہیں مدینہ طیبہ میں ان کا وصال ہوگیا ۔ ہمارے ملک کی موجودہ حکومت گو جمہوریت کے طرز کی ہے ، مگر مزاج وہی ہے ۔ قارئین کو معلوم ہوگا کہ سیاسی بساط پر اگر کوئی شخص تیزی سے ابھرتا ہے ، اور اقتدار کو اس سے خطرہ محسوس ہوتا ہے ، تو وہ خواہ گھر ہی کا آدمی ہو ، خواہ بیٹا ہی ہو ، اسے راہ سے ہٹادیتا ہے ۔ اس ملک میں بغیر نمائش اور پروپیگنڈہ کے کام ہونا چاہئے ، تاکہ کام بھی ہوجائے اور کسی کی نگاہ بد بھی نہ پڑے ۔ نمائش اور پروپیگنڈاتو اسلام میں کبھی مستحسن نہیں رہا ہے ، اینی اعمال کسی نمائش اور پروپیگنڈے سے بے نیاز بھی