مقصد یہ ہے کہ کثرت تعداد اور ہجوم افراد پر نازاں ہونا ، اور اس کی بنیاد پر کسی طرح کا دعویٰ کرنا حق تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ کام نہیں ، رسول اﷲ ا کی ذاتِ گرامی موجود ہے، صحابہ خود انتہائی بزرگ اور مقرب بندے ہیں ، لیکن کثرت تعداد پر ناز کاایک جملہ بعض حضرات سے صادر ہوا، تو پوری فوج آزمائش میں پڑگئی ، اور اﷲ نے اس پر تنبیہ فرمائی ، اب قیامت تک کے لئے اہل اسلام کے لئے یہ واقعہ اور یہ ارشاد اُسوہ ہے کہ یہاں مدارِ کار نصرتِ الٰہی پر ہے ، افراد کم ہوں یا زیادہ ہوں ۔کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً بِإِذْنِ اﷲِّ ( البقرۃ: ۲۴۹) بار بار تھوڑی سی جمعیت بڑی جمعیت پر اﷲ کے حکم سے غالب آئی ہے۔
لیکن یہ ایک بشری کمزوری ہے جس کی اصلاح ضروری ہے ، کہ جب کسی مقصد پر بڑی تعداد جمع ہوجاتی ہے ، اور کسی کام کے لئے کافی سرمایہ اکٹھا ہوجاتا ہے ، تو لوگوں میں ایک نازسا ہونے لگتا ہے ، لیکن یہ بات سیاسی پارٹیوں کے لئے ، دنیاوی مقاصد کے لئے ، حکومت اور ریاست کے لئے خوش آئند ہوتو ہو ، مگر دینی مقاصد کے لئے ، دینی جماعتوں کے لئے ، اور دین کے خادموں کے لئے یہ بات نہ طریقۂ کار کے لحاظ سے پسندیدہ ہے اور نہ نتائج کے اعتبار سے! اگر تعداد ہی بڑھانی مقصود ہوتی ، تو رسول اﷲ ا کی خدمت میں کفار نے مال کی ، عورت کی ، حکومت کی پیشکش کی تھی ، بشرطیکہ آپ اپنے مقصد میں کچھ نرم ہوجائیں ،اگر ان کی اس پیشکش کو آپ کسی درجے میں دنیاوی مصلحت کے لحاظ سے منظور فرمالیتے ، اور اس طرح اپنی تعداد بڑھالیتے ، تو ہوسکتا تھا ، مگر آپ نے اس پر سرے سے توجہ ہی نہیں دی ، آپ نے اپنے لوگوں کی قلیل تعداد پر اکتفا کرتے ہوئے ، حکم الٰہی کے مطابق جد وجہد جاری رکھی ، تکلیفیں سہیں ، شدائد برداشت کئے ، لیکن تعداد کی طرف التفات نہ کیا ۔
مگر اب دنیا کے غلبے نے کثرت تعداد کے نظریے کو اتنا عام کردیا ہے کہ دینداروں ، دین کے خدمت گاروں اور دینی جماعتوں کی نظر میں نہ صرف یہ کہ کثرت تعداد بہت اہمیت اختیار کرگئی ہے ، بلکہ اس پر فخر وناز کاایک مزاج بن گیا ہے۔
کچھ مدت گزری ، دار العلوم دیوبند کے اربابِ حل وعقد نے ، اس کے سوسال