مکہ مکرمہ ۸ھ میں رسول اﷲ ا نے فتح کیا،اور وہاں آپ کا قبضہ مکمل ہوگیا، کعبۂ مطہرہ سے بتوں کی نجاست دور کردی گئی ، کفر وشرک کی گندگی سے وہ ہمیشہ کے لئے پاک ہوگیا ، اس کے فوراً بعد آپ کو طلاع ملی کہ قبیلہ ہوازن اور بنی ثقیف وغیرہ بہت سے قبائل عرب نے ایک لشکر جرار تیار کرکے بڑے سازوسامان کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا ہے ، یہ خبر پاتے ہی آپ نے دس ہزار مہاجرین وانصار کی فوجِ گراں لے کر ، جو مکہ فتح کرنے کے لئے مدینہ سے آئی تھی ، طائف کی طرف کوچ کردیا ، دوہزار طلقاء بھی جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوئے تھے ، آپ کے ہمراہ تھے ، یہ پہلا موقع تھا کہ بارہ ہزار کی عظیم الشان جمعیت کیل کانٹے سے لیس ہوکر میدانِ جہاد میں نکلی ، یہ منظر دیکھ کر بعض صحابہ سے رہا نہ گیا اور بے ساختہ بول اٹھے کہ ( جب ہم بہت تھوڑے تھے ، اس وقت ہمیشہ غالب رہے تو ) آج ہماری بڑی تعداد کسی سے مغلوب ہونے والی نہیں ، یہ جملہ مردانِ توحید کی زبان سے نکلنا بارگاہِ احدیت میں ناپسند ہوا، ابھی مکہ سے تھوڑی دور نکلے تھے کہ دونوں لشکر مقابل ہوگئے ، فریق مخالف کی جمعیت چار ہزار تھی ، جو سر سے کفن باندھ کر نکلی تھی ، ابتداء میں مسلمانوں کو غلبہ ہوا، اور کفار کے قدم اکھڑ گئے ، اب لشکر اسلام ان سے بے فکر ہورہا تھا کہ قبیلہ ہوازن جو تیر اندازی میں مشہور تھا ، گھات سے نکل آیا ، انھوں نے آنِ واحد میں چاروں طرف سے اتنے تیر برسائے کہ مسلمانوں کو قدم جمانا مشکل ہوگیا ، اوّل طلقاء میں بھاگ پڑی ، آخر سب کے پاؤں اکھڑ گئے ، زمین باوجود فراخی کے تنگ ہوگئی کہ کہیں پناہ نہیں ملتی تھی ، بس ایک حضور اکرم ا کا دم تھا ،اور آپ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ سو رفقاء تھے ، جو اپنی جگہ ثابت قدم تھے ، بلکہ دشمنوں کے نرغے میں آگے بڑھ رہے تھے ، اسی حالت میں آپ نے صحابہ کو پکارا ، اور آپ کے حکم سے آپ کے چچا حضرت عباس ص نے ایک بلند آواز لگائی ، اس پر تمام صحابہ ایک دم پلٹ پڑے ، اور ازسر نو جنگ شروع ہوئی ، اور دم کے دم میں لڑائی کا پانسہ پھر صحابہ کے حق میں پلٹ گیا ، اور انھیں بے نظیر کامیابی ہوئی ، سیرت کی کتابوں میں اس کی تفصیل پڑھی جاسکتی ہے۔