تقویٰ کیاہے؟ ظاہر وباطن سے، جسم سے اورقلب سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنا، اوراللہ کی نافرمانی سے بچنا، اس کا اہتمام کرنا، دل میں اسی کی فکر اور دھن کا مسلط ہوجانا، یہی تقویٰ ہے، تقویٰ کی جزئیات بہت ہیں ، مگر کلی طور پر جب آدمی کو فکر ہوجاتی ہے، تواللہ تعالیٰ تقویٰ کی راہ بھی آسان فرمادیتے ہیں ، اس سے انسان کو اپنے خالق ومالک کے ساتھ ایسا ربط پیدا ہوجاتاہے کہ وہ کہیں بھی ہو اپنے کو اکیلا اور بے سہارا نہیں محسوس کرتا، اس کے سامنے کہیں اندھیرا نہیں ہوتا، مشکل سے مشکل مرحلہ اس کے لئے روشن اورسہل ہوتاہے، اورجس قدر وہ تقویٰ میں ترقی کرتاہے، راستہ آسان ہوتاجاتاہے، چنانچہ ارشاد ہے :
فَاَمَّا مَنْ اَعْطیٰ وَاتَّقیٰ وَصَدَّقَ بِالْحُسْنیٰ فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْیُسْریٰ (سورۃ واللیل: ۷) تو جس کسی نے دیا، اور تقویٰ اختیار کیا اوراچھے کلمہ کی تصدیق کی، ہم اسے سہج سہج آسانی میں پہنچا دیں گے۔
اس آیت میں حق تعالیٰ نے تین چیزیں ذکرفرمائی ہیں ، دینا یعنی دوسروں کو اپنے مال میں سے دیتے رہنا، یہ علامت ہے اس بات کی کہ دینے والا اللہ پر بھروسہ رکھتاہے، اس لئے اپنا مال دے دینے میں اسے ہچکچاہٹ نہیں ہوتی، دوسری چیز تقویٰ ، تیسرے ایمان، جس میں یہ تینوں باتیں موجود ہوں گی، وہ آسانی کی راہ پر لیجایا جارہاہے، وہ ہرقدم آسانی اور راحت میں رکھتاہے، کیوں کہ اللہ نے ان اعمال وصفات میں یہی خاصیت رکھی ہے۔
تقویٰ اورتوکل ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہیں ، یہی وجہ ہے ، جہاں حق تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ جو تقویٰ اختیار کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کے لئے آسانی کی راہ نکالیں گے اور ایسی جگہ سے روزی عطا فرمائیں گے جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہوگا، وہیں یہ بھی فرمایاہے کہ :
وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلیٰ اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہٗ۔(سورۃ الطلاق: ۳) اور جوکوئی اللہ پر بھروسہ رکھے، تو وہ اس کو کافی ہے۔
اور یہ بالکل سامنے کی بات ہے ہرمعاملہ میں اللہ پر جوبھروسہ رکھے گا، اسے