بلکہ اخلاص ویکسوئی کے ساتھ حق تعالیٰ کی اطاعت میں لگے رہے، امام زہری فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے منبر پر اس آیت کی تلاوت فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ استقاموا واﷲﷲ بطاعتہ ولم یروغوا روغان الثعالب (تفسیر ابن کثیر) اللہ کے لئے اس کی طاعت پر ثابت قدم رہے اور لومڑی کی طرح حیلہ سازی کے ساتھ ادھر اُدھر انحراف نہیں کیا۔
مومن کا جب یہ حال قائم ہوجاتاہے تومرتے دم اس پرفرشتے دمبدم اترتے ہیں ، اور اس گھبراہٹ کے وقت اسے تسلی دیتے ہیں ، اس وقت جن الفاظ میں وہ دنیا چھوٹنے پر مومن کو اطمینان دلاتے ہیں ، ان میں ایک بات یہ بھی کہتے ہیں کہ نحن اولیاء کم فی الحیٰوۃِ الدنیا۔ ہم تمہارے دوست، ہمدرد اور ہربگڑی میں ساتھ دینے والے دنیا میں بھی ہیں اور آخرت میں بھی۔
یہ جملہ بہت قابل غور ہے، فرشتوں کا گروہ اہل ایمان کے لئے سرمایۂ تسکین واطمینان ہے، یہ جب مومن کا ساتھ دیتے ہیں تو اس سے زیادہ اطمینان کی بات کیا ہوسکتی ہے، پھر اس مقدس اورپاکیزہ گروہ کے ساتھ ہونے کے بعد آدمی کو کیا گھبراہٹ ہوسکتی ہے، اس سرمایۂ سکون کا حصول کس چیز سے ہوتاہے، اللہ تعالیٰ بتاتے ہیں کہ اللہ کو رب ماننا اور پھر اس پر مضبوطی کے ساتھ جم جانا۔
یہ اللہ کا فرمان ہے مگر مادیت اور اسباب کی ماری ہوئی دنیا کو یہ بات کب سمجھ میں آئے گی، مگر واقعہ یہی ہے کہ راحت اور اطمینان کا خزانہ ایمان واستقامت ہی میں ہے، اسباب کا جتنا تجربہ ہوتاہے، نتیجہ برعکس ہی نکلتاہے، اللہ کا فرمان تویوں ہی قابل اذعان ہے، لیکن جب اس کے ساتھ صدیوں اورصدہا آدمیوں کے تجربات بھی شامل ہوں تب توشرح صدر ہوجانا چاہئے۔
ایک اورآیت ملاحظہ ہو:
اَلَااِنَّ اَوْلِیَآئَ اللّٰہِ لَاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا