فرمائیے، حق تعالیٰ جواب عنایت فرماتے ہیں :
مَنْ عَمِلَ صَالِحاً مِّنْ ذَکَرٍ اَوْاُنْثیٰ وَھُوَ مُؤمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً وَّلَنَجْزِیَنَّہُمْ اَجْرَھُمْ بِاَحْسَنِ مَاکَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (سورۃ النحل : ۹۷)
ترجمہ:- جس نے اچھا کام کیا، خواہ مرد ہو یا عورت اور وہ ایمان رکھتاہے، تواسے ہم ایک پاکیزہ اور صاف ستھری زندگی عطافرماتے ہیں ، اور ہم انھیں اچھے اعمال کے عوض میں بہترین اجر عنایت فرمائیں گے۔
مشہور مفسرقرآن حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ حیاۃ طیبہ وہ ہے جوراحت وآرام کے وجوہ وطرق پر مشتمل ہو، دنیا میں راحت اورآخرت میں اجرعظیم! معلوم ہوا کہ سکون وراحت کا سرچشمہ نہ مال ہے، نہ دولت، نہ طاقت ، نہ شوکت بلکہ اللہ ورسول پر ایمان اوران کی اطاعت وفرمانبرداری میں بہتر سے بہتر اعمال کوبجالانا، ظاہر اً بھی اور باطناً بھی۔
دوسری جگہ حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلٰئِکَۃُ اَنْ لَّا تَخَافُوْا وَلَاتَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ، نَحْنُ اَوْلِیَائُ کُمْ فِیْ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِیْ الْاٰخِرَۃِ وَلَکُمْ فِیْھَا مَاتَشْتَھِیْ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْھَا مَاتَدَّعُوْنَ۔ نُزُلاً مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍ۔ (سورہ حم السجدۃ: ۳۰،۳۱،۳۲)
بیشک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے، پھر اپنے اس قول پر مضبوط رہے، ان پرفرشتے مسلسل ا ُترتے ہیں کہ نہ کچھ اندیشہ کرو، نہ افسوس میں پڑو اورجنت کی خوش خبری حاصل کرو، جس کا تم سے وعدہ کیا جاتاتھا ہم تمہارے دوست ہیں دنیاوی زندگی میں بھی اورآخرت میں بھی، اورتمہارے لئے اس میں ہروہ چیز ہے جوتمہارا جی چاہے، اورتمہارے لئے ا س میں ہروہ چیز ہے جوتم مانگو، یہ سب سامان مہمانی ہے، مغفرت کرنے والے رحم وکرم کرنے والے کی جانب سے۔
اللہ کو رب مانا پھر اس پر جمے رہے کا مطلب یہ ہے کہ پھرکسی اور طرف التفات نہ کیا،