لذت ملتی ہے، چاہے اس لذت کا اختتام کسی ہولناک تلخی پر ہو، اب اگر کسی سے کہا جائے کہ لذتوں پرقابو پاؤ، ان کے پیچھے نہ دوڑو، توزبان سے چاہے اس کی تائید کردے، مگر جب کرنے کا موقع آئے گا توآدمی آنکھ بند کرکے لذت نفس میں کود پڑتاہے، طبیعت انسانی عجب پیچیدہ ترکیب رکھتی ہے، بولنے کا فلسفہ اس کا کچھ اور ہے، اور کرنے کا کچھ اور! اسی کچھ اور، کچھ اور میں پوری کائنات انسانی درہم وبرہم ہورہی ہے، ہرآدمی باوجودیکہ وہ سکون واطمینان کو تلاش کرتاہے، مگر بیشتر اوقات پریشانی میں گھراہوا رہتاہے، اس پریشانی اور بے سکونی کا علاج قرآن کریم میں ہے، مگر کیا کیجئے کہ آج کی دنیا قرآن کی تعلیم اوراس کے موضوع سے اتنی دور ہے کہ محض قرآن کا نام سننے ہی سے پیشانیاں شکن آلود ہونے لگتی ہیں ، اور جب اس کی تعلیم کا ذکر کیا جاتاہے تو اسے اس طرح سنا جاتاہے جیسے کائنات سے ماوراء کوئی چیز ہو، جس کو صرف خاص خاص لوگ ہی اختیار کرسکتے ہیں ، عام لوگ تواس کا تصور بھی نہیں کرسکتے، حالانکہ معاملہ ایسا نہیں ، قرآن کی تعلیم سب کے لئے ہے، اور سب استعداد والوں کے لئے ہے جوجتنا اسے اختیار کرے گا، اس کے لئے اتنا ہی راستہ کھلتا جائے گا، حق تعالیٰ نے اپنے بندوں کو پیدا کیا ہے، وہی ساری کائنات کی اور خود انسانوں کی نفسیات سے بخوبی واقف ہیں اور وہی الجھی ہوئی طبیعتوں کو سلجھانے پر قدرت رکھتے ہیں ، آدمی اول تو انسانی نفسیات کے تمام پیچ وخم سے واقف نہیں ہوتا، اور اگرواقف بھی ہوتو اس کا صحیح علاج تجویز کرنے کی معلومات نہیں رکھتا، اور اگر قدرے معلومات اسے حاصل بھی ہوں تو بیماریوں کوشفا بخشنے کی قدرت نہیں رکھتا، علم وقدرت کی اتنی الجھنوں کے بعد بھلا انسانی تدبیروں سے کیا توقع کی جاسکتی ہے کہ ان سے انسانوں کی پریشانیوں کا کوئی مسئلہ حل ہوسکے گا، پس ذہنی وقلبی بیماریوں کا مداوا آدمیوں کی وضع کردہ تدبیروں میں نہیں ، اس درد کی ایک ہی دواہے کہ اسی ذات کی جانب رجوع کیا جائے جوعلیم وخبیر ہے اور قوی وقدیر بھی۔
اس تمہید کے بعد ہم قرآن کریم کی طرف رجوع کرتے ہیں ، اطمینان وسکون کا سوال ہم اسی بارگاہ سے کرتے ہیں دیکھئے ادھر سے کیا جواب ملتاہے؟ غور سے ملاحظہ