ہرجانے کادعویٰ … آئندہ ہفتے آٹے میں اور کمی کاامکان … اسمبلی میں پریسیڈنٹ اورایک ممبر میں جھڑپ … آسام میں سیلاب کی تباہ کاریاں … بندرگاہ پر روئی کی دس ہزار گانٹھیں جل کر تباہ ہوگئیں … ایک عورت کے عجیب الخلقت بچہ پیدا ہوا … سینما ہاؤس کے ٹکٹ گھر پر تماشائیوں نے ہلہ بول دیا، دس آدمی شدید زخمی، ایک آدمی زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسا … فلاں جگہ زلزلہ تین سکنڈ تک رہا … بے روز گاری سے تنگ آکر خودکشی کرلی …حوالات سے قتل کے ملزم کا فرار…
یہ خبریں اورسرخیاں ایک روز کی نہیں ، روزانہ کی ہیں ، عنوان بدل بدل کر ، پھراخبار کی دنیا سے نکل کر آبادیوں میں آئیے، گھروں میں جھانکئے، افراد کوٹٹولئے، ہرطرف پریشانی ہی پریشانی ہے، بے اطمینانی ہی بے اطمینانی ہے، باپ بیٹے میں الجھن ہے، زمین جائداد پرلڑائی ہے، فلاں بیمار ہے، اور پورا گھرانا پریشانی میں ہے، اس کی تفصیل لکھنے والے سے زیادہ پڑھنے والوں کو معلوم ہے۔
پھر کیا اس پریشانی اورحواس باختگی کا کوئی علاج بھی ہے؟ یایہ لاعلاج مرض ہے؟ جی نہیں ،یہ مرض لاعلاج نہیں ہے، اس کا علاج ہے، اور بہت شفا بخش علاج ہے، لیکن انسان کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ علاج کو مرض سمجھتاہے، اور اس سے بھاگتاہے، اور بیماریوں کو علاج گردانتاہے، اوراس میں گھستاہے۔
اس بے چینی اوراضطراب کا علاج انسانی افکار ونظریات میں نہیں ، انسانوں کا حال یہ ہے کہ بیماری کاعلاج بیماری سے کرتے ہیں ، اورمرض کو مزید بڑھالیتے ہیں ، خوب تجربہ ہے، کہتے ہیں کہ ایک دیہاتی نے ڈاکٹر سے شکایت کی کہ پیٹ خراب ہے، ڈاکٹر نے ایک دوا دی کہ کھالو، کہنے لگا کہ اتنی گنجائش ہوتی تو ایک لقمہ اورنہ کھالیتا، عجیب بات ہے کہ کھانے کا علاج کھانے سے کیا جائے۔
یہ کہنے کو ایک لطیفہ ہے، مگرحقیقت یہ ہے کہ انسانی معاشرہ کی یہ ایک عبرتناک تصویر ہے، نفس انسانی جولذتوں کا جویاہے وہ انھیں چیزوں کی طرف دوڑتاہے، جن میں اسے