پھرحضرت عمر ص کو حکم دیا کہ اس کا قرض ادا کردو ، اور مزید بیس صاع اور زائد دو ، کیونکہ تم نے ایک صاحب حق کے دل کو دکھادیا ہے، آپ کے اس معاملہ کو دیکھ کر زید بن سعنہ مسلمان ہوگئے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ نبوت کی سب علامتیں میں نے آپ کے اندر دیکھ لی تھیں ، صرف دو چیزیں باقی رہ گئی تھیں ، ایک یہ کہ ان کا حلم ان کے جہل پر غالب اور سابق ہوگا ، دوسری یہ کہ جتنی شدید جہالت کا ان سے برتاؤ کیا جائے گا اتنا ہی ان کا حلم بڑھے گا ، میں انھیں دونوں کا امتحان کرنا چاہتا تھا ، الحمد ﷲ بات مکمل ہوگئی ۔
اور آخری بات یہ ہے کہ مکی دور میں کفار نے آپ پر اور آپ کے اصحاب پرظلم وستم کے کتنے پہاڑ توڑے تھے ، یہ تو تاریخ کی متواتر شہادت ہے ، جس میں کسی دشمن کو بھی شبہ نہیں ہوسکتا ، پھر مدنی زندگی میں ان کے حملوں ، ناروا کارروائیوں کا سلسلہ چلتا رہا ، مگر حلم ومروت کی جلوہ گری دیکھئے کہ فتح مکہ کے موقع پر یہ لوگ آپ کی خدمت میں گرفتارانہ پیش کئے گئے ، تو تاریخ کے صفحات سے دریافت کیجئے کہ آپ کا رویہ کیا رہا ؟ کیا معافی اور درگزر کے علاوہ کوئی بات آپ کی زبان مبارک سے صادر ہوئی ، آپ نے انھیں سے پوچھا ماتقولون إنی فاعل بکم ؟ تم لوگ کیا سوچتے ہو کہ میں تمہارے ساتھ کیا معاملہ کروں گا ؟ انھوں نے جواب دیا کہ ہم خیر کی امید رکھتے ہیں ، آپ شریف بھائی ہیں ، شریف بھائی کے بیٹے ہیں ، آپ نے فرمایا کہ میں وہی بات کہتا ہوں جومیرے بھائی یوسف ں نے کہی تھی : لاتثریب علیکم الیوم(سورۂ یوسف : ۹۲) تم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے ، سب کچھ معاف! إذھبوا أنتم الطلقاء ، جاؤ تم سب آزاد ہو۔
ابوسفیان سے ان کے کفر کی حالت میں جب آپ کی آخری ملاقات ہوئی ، تو آپ نے ان سے صرف اتنا فرمایا ، سنئے ! یہ ابوسفیان وہی ہیں ، جنھوں نے غزوہ بدر کے بعد فتح مکہ تک آپ کے ساتھ جنگ چھیڑ رکھی تھی، اور آپ کی ایذا رسانی میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا تھا، آپ کے چچا حضرت حمزہ ص کو شہید کرنے میں انھیں کا ہاتھ تھا ، ان کا مثلہ کیا گیا ، شہادت کے بعد ان کا حلیہ بگاڑا گیا ، اس میں بھی انھیں کا دخل تھا ، غزوہ خندق کی بلائے عظیم