، سکوت کے بعد فرمایا ، تو یہ فرمایا کہ المال مال اﷲ وأنا عبدہ، مال تو اﷲ کا مال ہے ، میں تو اس کا غلام ہوں ، پھر فرمایا : ویقاد منک یا أعرابی مافعلت بی ، جو کام تم نے میرے ساتھ کیا ہے ، کیا اس کا تم سے قصاص لیاجائے ؟ اس نے کہا نہیں ، فرمایا کیوں ؟ کہا اس لئے کہ آپ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے ، اس پر نبی کریم ا ہنس پڑے ، پھر آپ نے حکم دیا کہ ایک اونٹ جو لاد دو ، اور ایک اونٹ پر کھجور!
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا جو خلوت وجلوت کی انیس ورفیق ہیں ، فرماتی ہیں کہ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ آپ نے ظلم کابدلہ لیا ہو ، ہاں اﷲ کی حرام کی ہوئی چیزوں کی حرمت کسی نے توڑی ہو ، تو اس کا بدلہ لیتے تھے ، اور نہ اپنے ہاتھ سے آپ نے کسی کو کبھی ماراہو، الا ّ یہ کہ جہاد فی سبیل اﷲ میں آپ رہے ہوں ، اسی طرح آپ نے کبھی نہ اپنے کسی خادم کو مارا نہ کسی عورت کو مارا ، ایک آدمی آپ کی خدمت میں پکڑ کر لایا گیا، کہ یہ آپ کو قتل کرنے کے ارادے سے آیا ہے ، آپ نے فرمایا لن تراع لن تراع،تم پر کچھ خوف نہیں ،تم پر کچھ خوف نہیں ، اگر تم میرے قتل کاارادہ کرتے ، تب بھی تم کو میرے اوپر قابو نہ ملتا۔
ایک مالدار یہودی تھا زید بن سعنہ ، بڑا صاحب ثروت بھی تھا ، اور مذہب یہود کا بڑا عالم بھی تھا ، اس نے آپ کی خدمت میں پیش کش کی تھی کہ قرض کی ضرورت ہو تو مجھ سے لے لیا کیجئے ، آپ نے قرض وہاں سے منگوایا ، اس نے ایک مرتبہ قرض کا آپ سے نہایت بد خلقی اور گستاخی کے ساتھ تقاضا کیا ، اس نے آپ کا کپڑا پکڑ کر کھینچا، اور بڑی سختی سے کہا کہ عبد المطلب کی اولاد! تم لوگ نادہند ہو ، قرض لے کر ادائیگی میں ٹال مٹول کرتے ہو ، سیّدنا عمر فاروق ص وہاں موجود تھے، انھوں نے جھڑکااور سخت الفاظ اس سے کہے ، لیکن نبی کریم ا کے چہرۂ اقدس پر کوئی تغیر نہ تھا ، آپ مسکرارہے تھے ، آپ نے حضرت عمر ص سے فرمایا ، کہ جو کچھ تم نے کہا میں اور یہ ، دونوں اس کے علاوہ دوسری بات کے ضرورت مند تھے ، تم کو چاہئے تھا کہ مجھے قرض کی بخوبی ادائیگی کی تلقین کرتے ، اور اس کو حسن تقاضا کا حکم دیتے ۔
پھر فرمایا کہ ادائیگی کی جو مدت مقرر کی گئی ہے ، اس میں تین دن باقی ہیں ،