نصیحت فرمائی ، اتنا نہیں ،اصحاب رسول اﷲ ا کو اس کے اس گستاخانہ جملے پر جس قدر غیض وغضب ہواہو ، بجا تھا ، چنانچہ کچھ حضرات نے اسے اس کی سزا دینی چاہی ، تو آپ نے انھیں منع فرمادیا ، انسانی اخلاق کی تاریخ میں اس کے نظائر کہاں کوئی پاسکتا ہے ؟ بجز آپ کی سیرت اور آپ کے سچے متبعین کے احوال کے !
یہاں تو عالم یہ ہے کہ ایک یہودی عورت جان بوجھ کر آپ کے کھانے میں زہر ملادیتی ہے، اس نے آپ کی دعوت کی تھی، اور ازراہِ کرم آپ نے قبول فرمالی تھی،لیکن وحی الٰہی نے آپ کو بتایا کہ یہاں زہر قاتل داخل طعام ہے ، پھر اس عورت نے اقبالِ جرم بھی کرلیا تھا ، مگر آپ کا حلم وعفو دیکھئے کہ اسے بھی معاف کردیا ۔ لبید بن اعصم یہودی نے آپ پر جادو کیا ، آپ کو معلوم بھی ہوا، مگر آپ نے درگزر فرمادی ، عبد اﷲ بن اُبی رئیس المنافقین کی طرف سے بار بار ایذا رسانیوں کا چکر چلتا رہتا تھا ، جنگ کا موقع ہوا ، امن کے اوقات ہوں ، سفر ہو ، سفر سے واپسی ہو ، گھر میں ہو، بازار میں ہو ، آپ کی ذات کا مسئلہ ہو، آپ کے حرم ( ازواج مطہرات) کا مسئلہ ہو ، ہر جگہ یہ شخص تکلیف پہونچانے کا شوشہ تلاش کرلیا کرتا تھا ، کہیں کوئی رورعایت نہیں کرتا تھا ، حضور اکرم ا اس کی اور اس کے رفقاء کی ایذارسانیوں کو ٹھنڈے دل سے برداشت کرلیا کرتے تھے ، ایک مرتبہ کسی منافق کے بارے میں آپ سے اجازت چاہی گئی کہ اس کا کام تمام کردیا جائے ، تو آپ نے منع فرمایا ، اور فرمایا کہ لوگوں میں مشہور ہوگا کہ محمد اپنے ساتھیوں کو قتل کرادیتے ہیں ۔
اور ملاحظہ فرمائیے ! حضرت انس ص فرماتے ہیں کہ میں ایک بار رسول اکرم ا کی خدمت میں تھا ، آپ کے جسم مبارک پر ایک چادر تھی ، جس کا حاشیہ سخت اور موٹاتھا، ایک بد وآیا اور اس نے زور سے جھٹک کر آپ کی چادر کھینچی ، اور اس طرح کھینچی کہ آپ کی گردن اور کندھے پر اس کے نشانات ابھر آئے، اس نے کہا اے محمد! میرے ان دونوں اونٹوں پر اﷲ کا وہ مال لادکر دیجئے ، جو آپ کے پاس ہے ، کیونکہ مجھے آپ نہ اپنا مال دیں گے ، اور نہ اپنے باپ کا مال دیں گے ( یہ تو اﷲ کا مال ہے ) نبی ا خاموش رہے، نہ غصہ ہوئے ، نہ ڈانٹاجھڑکا