اتنے ہی پر بس نہیں کیا ، بلکہ انھیں معاف فرمادیا، پھر مزید شفقت فرمائی کہ رحم وکرم کا برتاؤ فرمایا ، ان کے لئے دعا فرمائی ، ان کی سفارش کی ، اور فرمایاانھیں بخش دیجئے اور ہدایت دیجئے ، پھر شفقت وترحم کی وجہ بھی اﷲ کی رحمت کو متوجہ کرنے کے لئے ذکر کی ، اور فرمایا لقومی ،یہ لوگ میری قوم کے ہیں ، مجھ سے انھیں قومیت اور قرابت کی نسبت حاصل ہے ، پھر ان کی طرف سے معذرت بھی پیش فرمارہے ہیں کہ یہ لوگ واقف نہیں ہیں ، اس لئے ایسی حرکت کررہے ہیں ۔
اسی طرح ایک بار فتح مکہ کے دور میں جبکہ آپ کو ہوازن وغیرہ سے کثیر تعداد میں مال غنیمت حاصل ہوا تھا ، آپ مالِ غنیمت تقسیم کررہے تھے، تو ایک بد بخت نے، جو خود کو مسلمانوں کے زمرے میں شامل کئے ہوئے تھا، آپ سے کہا اور بڑی دریدہ دہنی سے کہا ، انصاف کرو ، یہ تقسیم ایسی ہے کہ اس میں اﷲ کی رضامندی کی نیت نہیں کی گئی ہے۔
نبی کریم ا پریہ ایک شدید قسم کاناروا حملہ تھا ، جس کا تعلق دیانت سے تھا ، آپ نے خود ارشاد فرمایا ہے : لادین لمن لا أمانۃ لہ ، جس میں امانت کا اہتمام نہیں ، اس کے پاس دین نہیں ۔ پھر آپ کی امانت ودیانت ہر قسم کے شک وشبہ سے بالاتر ہے ، اس وقت جب آپ کے اوپر وحی کا سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا ، تب بھی آپ کی صداقت وامانت مشہور ومعروف تھی ، پھر نبوت ملنے کے بعد، وہ بھی زندگی کے آخر ی دور میں اگر کوئی شخص آپ پر الزام لگائے کہ مال کی تقسیم میں رضاء الٰہی کا ارادہ نہیں نفسانیت کا داغ لگا ہوا ہے ، تو آپ کو کس قدر روحانی تکلیف پہونچے گی ۔
مگر یہاں آپ کا حلم ، آپ کی بردباری ، آپ کا حوصلہ برداشت کی کن بلندیوں پرہے ، اسے آپ کے جواب میں ملاحظہ فرمائیے، فرمایا: ویحک فمن یعدل إن لم أعدل؟ خبت وخسرت إن لم أعدل، افسوس ، اگر میں عدل نہ کروں گا ، تو کون عدل کرے گا ؟ اگر میں عدل نہ کروں ، تو میں خائب وخاسر ہوں ۔ اس کے جواب میں آپ نے صرف اتنا ہی کہا جس سے وہ شخص ناواقف تھا ، یا ناواقف بن رہا تھا ، اسے بتادیا اور اسے