اﷲ نے آپ کا مزاج ایسا ہی بنایا تھا ، پھر آپ کو اس کی تعلیم دی تھی ، اور اسی انداز پر آپ کی تربیت فرمائی تھی، حق تعالیٰ کا ارشاد ہے : خُذِ الْعَفْوَ وَأَمُرْ بِالْعُرْفِ(الاعراف: ۱۹۹) عفو ودرگزر کو اختیار کرو ، اور اچھی بات کا حکم کرو۔ صاحب شفاء قاضی عیاض علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ جب یہ آیت رسول اکرم ا پر نازل ہوئی تو آپ نے حضرت جبرئیل ں سے اس کاموقع اور اس کی تشریح دریافت کی ، انھوں نے عرض کیا کہ علیم وخبیر سے پوچھ لوں تو بتاؤں ، یہ کہہ کر چلے گئے ، پھر آئے تو بتایا یا محمد إن اﷲ یامرک أن تصل من قطعک وتعطی من حرمک وتعفو عمن ظلمک ، اﷲ تعالیٰ آپ کو حکم دیتے ہیں کہ جو تم سے قطع تعلق کرے ، اس سے تعلق جوڑو، جو تمہیں محروم کرے اسے تم بخشش میں حصہ دار بناؤ، اور جو تم پر ظلم کرے اسے معاف کردو۔( ص: ۷۴)
اس مبارک تعلیم کے آثار آپ کی پوری زندگی پر چھائے ہوئے ہیں ، اور حلم وعفو کا جو بلند سے بلند نمونہ ہوسکتا ہے ، وہ آپ کی سیرۃ طیبہ میں موجود ہے ، امیر المومنین سیّدنا عمر فاروق ص نے ایک مرتبہ آپ کی خدمت مبارکہ میں عرض کیا ……ان کا یہ کلام حضرت قاضی عیاض علیہ الرحمہ نے کتاب الشفاء میں نقل کیا ہے …… یا رسول اﷲ ! حضرت نوح ں نے اپنی قوم پر بددعا کی ، رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّاراً ( نوح :۲۶) اے میرے پروردگار! زمین پر کسی کافر کو بسنے والا نہ چھوڑئیے۔ اگر اسی طرح کی بددعا آپ ہمارے اوپر فرمادیئے ہوتے ، تو ہم بھی تمام تر ہلاک ہوجاتے ، آپ کی پشت مبارک کو روندا گیا ، آپ کا چہرۂ اقدس لہولہان کیا گیا ، آپ کے دندانِ مبارک شہید کئے گئے ، مگر آپ نے خیر کے علاوہ کوئی اور بات کہنی منظور نہیں کی، آپ نے تو یہ کہا : اللٰہم اغفرلقومی فإنھم لایعلمون، اے اﷲ میری قوم کو بخش دیجئے ، یہ ناواقف ہیں ۔
ملاحظہ ہو!سیّدنا عمر فاروق ص نے کس بلیغ انداز میں رسول اکرم ا کے فضائل ومحامد ، درجاتِ احسان ، کرم نفس اور انتہائی صبر وحلم کو جمع فرمادیا ہے، کہ آپ نے ستانے والوں کی ایذارسانی پر محض سکوت ہی نہیں فرمایا ، یہ بھی ہوتا تو کمالِ اخلاق کا مظہر عظیم ہوتا ، مگر