ہیں ، حق تعالیٰ نے ان کہنے والوں کی بات ہم تک پہونچائی ، اور رضامندی کا اظہار فرمایا: {رَبَّنَا اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیاً یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ اَنْ آمِنُوْا بِرَبِّکُمْ فَاٰمَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَکَفِّرْ عَنَّا سَیِّآتِنَاوَتَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ}
اے ہمارے رب ! ہم نے ایک پکارنے والے کو سنا ، وہ ایمان کی صدا لگارہا تھا کہ اپنے رب پر ایمان لاؤ، تو ہم ایمان لائے ، اے ہمارے رب تو ہمارے لئے ہمارے گناہوں کی مغفرت فرمادیجئے ، اور ہم سے ہماری برائیوں کو محو کردیجئے اور نیکوں کی معیت میں ہمیں وفات دیجئے ۔
یہ تفصیل تو حیاتِ انسانی کے اس پہلو کی تھی کہ خلافت ارضی کا منصب پانے والا ، اپنے خلیفہ بنانے والے سے سچا ، اور ہمہ وقتی تعلق رکھے ، اور اس کا اونچے سے اونچاجو معیار ہوسکتا تھا ، اس کا مشاہدہ حضرت ختم المرسلین ا کی سیرۃ طیبہ میں ہوتا ہے۔
اس صحیح اور سچے تعلق کو اگر ایک لفظ میں سمیٹا جائے تو اسے ’’اخلاقِ حسنہ‘‘ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے ، اور اخلاق حسنہ کی بنیاد ڈھونڈھی جائے تو وہ حلم ہوگی ، حلم کا مطلب یہ ہے کہ غصہ اور انتقام کے اسباب ومحرکات ہوں ، انتقام لینے کی قدرت بھی ہو ، لیکن اس کے باوجود آدمی نہ طیش میں آئے ، نہ غصہ میں تلملائے ، بلکہ سکون ووقار کی حالت بنی رہے ، یہ بات اس وقت حاصل ہوتی ہے جب آدمی کا حوصلہ بہت بلند ہو ، قلب میں بہت وسعت ہو ، ورنہ عموماً خلافِ طبع اور خلافِ مزاج باتوں پر آدمی از جا رفتہ ہوجاتا ہے ، اور طیش کی حالت میں خفیف الحرکاتی میں مبتلا ہوجاتا ہے، انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام اور بالخصوص رسول اﷲ ا کی حیاتِ مقدسہ میں ’’حلم وبُردباری ‘‘ ایک ایسا روشن اور تابناک ومنور عنوان ہے کہ بندوں کے باہمی تعلقات وروابط میں اس عنوان کی تابناکی ہرہر جگہ جلوہ گر نظر آتی ہے ، اور نازک سے نازک موقع پر بھی کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ آپ کو طیش آگیا ہو ، جوشِ انتقام میں آپ نے کوئی ناروا کلمہ بول دیا ہو ، یا غصے میں آپ شعلہ بداماں ہوگئے ہیں ، موقع خواہ کتنا ہی نازک ہو ، مگر آپ کوہِ وقار رہتے ۔