تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ، دنیا کا کوئی گوشہ رنج وغم سے خالی نہیں ، اگر کوئی جگہ اس سے پاک وصاف ہے ، تو وہ ذکر الٰہی کی خلوت گاہ میں ہے۔
ہیچ گوشہ بے ددوبے دام نیست جز بخلوت گاہِ حق آرام نیست
جوبندہ ذاکر ہوتا ہے وہ بظاہر اگر پریشانیوں میں گھرا ہوا بھی ہے ، تو صرف اس کا ظاہر ، اس کا باطن اور اس کا قلب تو اﷲ سے لو لگائے مطمئن ہے ، ذکر کی حلاوت جب دل میں جاگزیں ہوتی ہے ، تو دنیا ہی میں جنت کی لذت وراحت محسوس ہونے لگتی ہے ، اس میں آدمی سے جس قدر ہوسکے ترقی کرے ، اس کی ترقی کی انتہاء نہیں ہے ، ترقی ہوتی ہے ، تومرتبہ ٔ احسان بخشا جاتا ہے ، پھر مرتبۂ احسان خود اس درجہ وسیع وبلند ہے کہ اس کی بلندیوں اور وسعتوں تک پہونچنے کا تصور بھی مشکل ہے۔
ذکرالٰہی سے اﷲ کی معرفت کادروازہ کھلتا ہے ، اور جب انسان کو اﷲ کی سچی معرفت حاصل ہوتی ہے ، تو اس کا…… ایک مرکز پر ٹھہر جاتا ہے ، اور اﷲ کی محبت میں غرق ہوجاتا ہے ، اس وقت انابت ، عاجزی ، تواضع ، توکل ، فنائے نفس ، تفویض اور زہد وتقویٰ کی بیش قیمت دولتیں حاصل ہوتی ہیں ، اور آدمی خاک کی پستی سے نکل کر قرب ورضائے الٰہی کی فضاؤں میں پرواز کرنے لگتا ہے۔
انسان نے مادی ترقیات بہت کرلیں ، مگر اس کی روحانیت پیاس سے کراہ رہی ہے، بیرونی دنیا اپنی چمک دمک سے آنکھوں کو خیرہ کررہی ہے، لیکن اندرونی دنیا میں گھپ اندھیرا چھایا ہوا ہے، بدن زندہ ہے مگر روح مردہ ہے، بدن کے امراض کا مکمل علاج تلاش کیا جارہاہے، اور علاج کی سائنس نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ عقلیں حیران ہیں ، لیکن روحانی امراض کا علاج ناپید ہوتا جارہا ہے، بلکہ فرض کرلیاگیا ہے کہ روح بیمار ہے ہی نہیں ، بلکہ شاید یہ کہ روح موجود ہی نہیں ہے، لیکن عالم یہ ہے کہ سکون ناپید ہے ، ہر آدمی گھبرایا ہوا ہے ، امن عالم کا نظام درہم برہم ہے، اسبابِ راحت بہت ہیں ، مگر راحت کا نشان نہیں ملتا ، کیونکہ راحت تو ذکرِ الٰہی میں ہے ، نسبت مع اﷲ میں ہے ، توکل علی اﷲ میں ہے، اور یہی چیز غائب