اَلَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیٰماً وَّقُعُوْداً وَّعَلیٰ جُنُوْبِھِمْ وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلاً سُبْحٰنَکَ فَقِنَاعَذَابَ النَّار ، (سورۂ آل عمران:۱۹۱)وہ لوگ جو اﷲ کو کھڑے ، بیٹھے، لیٹے ، ہر حال میں یاد کرتے ہیں ، اور زمین وآسمان کی خلقت میں غور وتدبر کرتے ہیں ، اور کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! آپ نے ان کو بیکار نہین بنایا ہے ، آپ کی ذات پاک ہے ، پس ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا لیجئے ۔
قرآن کریم میں جو کچھ تعلیم ہے ، رسول اکرم ا کی ذات میں اس کی ہو بہو تعمیل ہے ، کان خلقہ القرآن، حضرت عائشہ رضی ا ﷲ عنہا کی سچی شہادت ہے، قرآن علم ہے ، اور صاحب قرآن عمل ہیں ، بس اﷲ کی یاد ، اﷲ کا ذکر، اﷲ کانام ، آپ کے وجود پر ، آپ کے ماحول میں آپ کے دن میں ، آپ کی رات میں چھایاہوا ہے ، زندگی کا کوئی لمحہ ایسا نہیں ہے ، جس میں آپ اﷲ کا نام نہ لیتے ہوں ، چنانچہ آپ سے ہرہر موقع کی دعائیں اور اَذکار منقول ہیں ۔ محدثین کرام نے ان اوراد واذکار اور دعاؤں کو ضخیم ضخیم مجموعوں میں جمع کیا ہے ، آپ کا وجودِ مبارک ذکرِ الٰہی کا مجسم نمونہ ہے ، آپ نے اﷲ کے ذکر میں خود کو اس طرح فنا کیا ہے کہ خود اﷲ کے ذکر کاایک حصہ اور مصداق بن گئے، قرآن کی آیات میں ، اذان کے کلمات میں ، درودوسلام کے صیغوں میں ، دعاؤں کی ابتداء وانتہاء میں ، کہاں کہاں اﷲکے ذکر کے ساتھ رسول اﷲ ا کا ذکر نہیں ہوتا ، حق تعالیٰ نے فرمایا : وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ ، سیرت طیبہ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی یہ وہ خصوصیت ہے ، جس سے ہر شخص واقف ہے ، ذکرِ الٰہی ایک نور ہے ، جس سے نہ صرف ذاکربلکہ اسکے اِرد گرد کا ماحول بھی نورانی بن جاتا ہے ، ذکر الٰہی کے سامنے شیطان بھی نہیں ٹھہر سکتا، ذکرِ الٰہی سے حق تعالیٰ کی محبت دل میں راسخ ہوتی ہے ، محبت جب راسخ ہوتی ہے، تو آدمی کو ہر ماسوی اﷲ سے بے نیاز کردیتی ہے، انسان کی سعادت کی بنیاد ذکر الٰہی ہے ، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس سے اﷲ تعالیٰ راضی ہوتے ہیں ۔ ذکرِ خداوندی فرض ہے، غفلت حرام ہے ، خوب سے خوب تر کی تلاش کرنے والا انسان اس خوبی سے کیوں غافل ہے؟ قلب کا سکون اگر کہیں ہے ، تو یادِ الٰہی ہی میں ہے، ألَاَ بِذِکْرِ اﷲِ