ترقی کرتے کرتے پھر یہ حال ہوتا ہے کہ زندگی کے کسی حال میں اس سے غفلت نہیں ہوتی ،ا ٹھتے بیٹھتے، لیٹتے حتیٰ کہ سوتے وقت ، غم میں ، خوشی میں ، تنگی میں ، فراخی میں ، کہیں بھی لحظہ بھر ذہول نہیں ہوتا ، ہمہ وقت اس کے وجود پر اﷲ کی یاد چھائی رہتی ہے ، شاعر نے اپنی شاعرانہ زبان استعمال کی ہے ، مگر ہے بالکل حقیقت !
میرا کمال عشق بس اتنا ہے اے جگر وہ مجھ پہ چھاگئے میں زمانہ پہ چھاگیا
یاد کی یہ کیفیت جب راسخ ہوتی ہے ، تو اسے مرتبۂ احسان کہتے ہیں ، رسول اکرم ا نے حضرت جبرئیل امین علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جواب میں فرمایا تھا : أن تعبد اﷲ کأنک تراہ فإن لم تکن تراہ فإنہ یراک (مسلم شریف: ۱) احسان یہ ہے کہ تم اﷲ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، پس اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ، تو وہ تو تمہیں دیکھ رہا ہے ۔
آنکھوں کی یہ کیفیت کہ دل کا تصور مشاہدہ میں آجائے ، اسی وقت ہوتی ہے جبکہ قلب کسی کی یاد سے اتنا معمور اور آباد ہوگیا ہوکہ اب اس میں دوسرے کی سمائی نہ ہو، بغیر اس مقام کو حاصل کئے دل کا خیال آنکھوں میں پھرنے لگے ، اور اس کو بقاء حاصل ہو نہیں ہوسکتا، یادِ الٰہی کی یہ کیفیت اور یہ رسوخ مطلوب ہے۔
رسول اکرم ا کی حیاتِ طیبہ کو جب دیکھتے ہیں ، تو اس کا ہر لمحہ اور ہر آن اﷲ کے ذکر سے معمور ومنور ہے ، نبی کی شان یہ ہے کہ جب خدا کی طرف سے کوئی حکم آجاتا ہے ، تو اسے اہتمام اور کمالِ توجہ سے پورا کرتے ہیں ، حق تعالیٰ کا حکم آیا کہ یَاأَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اذْکُرُوْااﷲَ ذِکْراً کَثِیْراً، اے ایمان والو! اﷲ کا ذکر بہت زیادہ کرو ، اس حکم کے بعد آپ کی زندگی کا کوئی لمحہ ذکرِ الٰہی سے کیونکر خالی رہ سکتا ہے ، اسی لئے حدیث میں آیا ہے ، حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں : کان یذکر اﷲ علیٰ کل أحیانہ ( مسلم شریف: کتاب الطہارۃ) رسول اﷲ ا ہر وقت اﷲ کا ذکر کرتے تھے۔
قرآن کریم میں ا ﷲ تعالیٰ نے اولوا الاباب کا تعارف کراتے ہوئے فرمایاہے: