سیرت طیبہ! یہ سیرت اتنی کامل ومکمل ، اتنی حسین ، اتنی طاقتور اور خوبیوں کے لحاظ سے اتنی ہمہ جہت ہے کہ اس کی نظیر کہیں اور نہیں ملے گی ، آپ کو اﷲ تعالیٰ نے ان تمام اوصافِ حمیدہ اور کمالاتِ علمیہ وعملیہ سے آراستہ کرکے بھیجا تھا ، کہ اگر ان میں سے کوئی ایک فضیلت کسی کوحاصل ہوجائے تو وہ اعلیٰ درجہ کاانسان کہلائے گا۔
انسان جب زمین پر اﷲ کا خلیفہ ہے ، تو اس کے لئے دو باتیں لازم ہیں ، تاکہ خلافت کی ذمہ داریوں سے وہ عہدہ بر آہوسکے ۔ اوّل یہ کہ وہ جس کا خلیفہ ہے اس کے ساتھ اس کا تعلق سچا ، مخلصانہ اور ہمہ وقتی ہو ، تاکہ اس کی منشا کو ہمیشہ پورا کرتا رہے، اگر اسے خلیفہ بنانے والی ہستی سے سچا تعلق نہیں ہے ، تو وہ ضرورخیانت کا مرتکب ہوگا ۔ دوسرے یہ کہ خلافت کی اس ذمہ داری میں اس کے ساتھ جو لوگ شریک ہیں ، ان کے ساتھ اس کے تعلقات صحیح اور منصفانہ ہو، اگر ایسا نہ ہوا تووہ اپنے بھائیوں کے حق میں ظلم ڈھاتا رہے گا۔
سیرت انسانی کے یہ دو معیار ہیں ، ان معیاروں کے درمیان درجات بہت ہیں ، ان میں خوب سے خوب تر کی تلاش ، انسان کو بہت بلند کرتی ہے، پھر اس ابتداء کے درمیان میں بہت سے مرتبے ہیں ، اور آخر میں احسان کی کیفیت خود بہت بڑی وسعت رکھتی ہے ، ان دونوں معیاروں پر جب ہم رسول اکرم ا کی سیرت طیبہ کو دیکھتے ہیں ، تو ہر معیار اپنے درجۂ کمال پر نظر آتا ہے۔
اس اجمال کی تفصیل بقدر ضرورت یہ ہے کہ روحانی بلکہ کہئے کہ انسانی کمالات کی بنیاد اﷲ وحدہٗ لاشریک کی ذاتِ برحق پر سچا ایمان ہے ، پھر خیر کے تمام برگ وبار اسی سے نکلتے ہیں ، اسی کے واسطے سے حق تعالیٰ سے بندے کاربط ہوتا ہے ، اﷲ کی عبادت ونیاز مندی ، اﷲ کی رضاجوئی ، اﷲ پر توکل واعتماد ، دنیا سے زُہد واستغنا اور عبودیت کے کمالات ، یہ سب ایک شجرۂ ایمان کی شاخیں اور برگ وبار ہیں ، اور ان سب کو ایک لفظ میں سمیٹا جائے ، تو اسے ’’ذکرِ الٰہی ‘‘ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے ، انسان کے قلب ودماغ میں اﷲ کی یاد چھا جائے ۔ذکر اﷲ کے دل میں چھا جانے کے بہت سے مراتب ہیں ، ایمان سے اس کی ابتدا ہوتی ہے، اور